تحریر : وقار احمد اعوان ایک دور تھا جب صوبہ خیبرپختونخوا کے گائوں میں خان خوانین ہی سیاست میں ہوا کرتے تھے تاہم جوں جوں تعلیم عام ہوتی گئی سیاست خان خوانین کے ہجروں سے نکل کر عام آدمی کو بھی سمجھ میں آنے لگی ،یوں مزدور سے لے کر ایک دکاندار،شیر فروش ،تانگہ و چنگ چی والا، ڈرائیور،استاد ،کلرک ،نانبائی،چھولے فروش سیاست میں نظرآنے لگے،حالانکہ ان میں سے اکثریت پڑھی لکھی نہیں ہے ،لیکن جدید ٹیکنالوجی سے مستفید ہوتے ہوئے اپنے آپ کو ملکی ،صوبائی وعلاقائی حالات سے باخبر رکھتے ہیں ،جس سے وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان کی طرح کسی بھی عنوان پر بولنا بھی سیکھ چکے ہیں اور اگر کہاجائے کہ قانون سازی سے بھی واقفیت حاصل کرچکے ہیں تو غلط نہ ہوگا ،وہ الگ بات کہ یہ لوگ کبھی سکول نہیں گئے ہونگے یا اگر گئے بھی ہونگے تو ان کی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہوگی لیکن حال یہ ہوگا کہ سمجھ دار انسان بھی آنکھ بچا کر چل پڑے۔بہرکیف بات ہورہی تھی گائوںکی سیاست کی ،کہ جو خوانین کے ہجروں سے نکل کر غریب کی کٹیا میں آ چکی ہے۔
شومئی قسمت کہ موجودہ سیاست میں وہ لوگ سامنے آئے ہیں جنہیں سیاست کا ککھ نہیں پتا بس کسی بینر میں اپنی فوٹو جما لی،جلسہ میں سٹیج پر کھڑے ہوکر کھپے ،زندہ باد جیسے نعرے لگالیے،ایک سستے سیل فون سے دو چار سیلفی بنالی اور بس ہولیے فیس بک پر تبصرہ دینے کے لئے تیار۔باقی اللہ مالک کہ مذکورہ فوٹوز پر کیسے کیسے تبصرے ہوتے ہیں ،چونکہ نظریاتی طور اختلاف کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے ،اس لئے ایک ہی گھر میں رہنے والے دو بھائی بھی ایک دوسرے کی سوچ کو غلط ثابت کرنے کی حتی الوسعٰی کوشش کرتے رہتے ہیں اور یہ تو پھر سوشل میڈیا ہے،یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ملے گا۔جسے دیکھو سوشل میڈیا میں گھسا ہواہے،کہیں کھیتوںمیں تو کہیں راہ چلتے دنیا کو خود سے متاثر ہونے کا ثبوت دیاجاتاہے،حالانکہ فیس بک کا مالک خود حیران ہوتا ہوگا کہ تیسری دنیا کے لوگ نہ جانے کیونکر خود پسند ہیں۔
بہرکیف جیسے سوشل میڈیا پر ہر ایرا غیرا موجود ہے ٹھیک اسی طرح آج کی ملکی سیاست کا بھی حال ہے،اول تو ملک خداداد میں سیاسی جماعتوں کی انتہائی تعداد ہے جبکہ دوسری جانب ہر مکتبہ فکر کے لوگ شارٹ کٹ ترقی ڈھونڈتے ڈھونڈتے سیاست میں ہولیتے ہیں۔اور شاید یہی کچھ وجہ ہو کہ ہمارے ہاں سیاست میں اتنی گندگی آچکی ہے کہ جسے صاف کرنا اب صوبہ بھرمیں قائم محکمہ ڈبلیو ایس ایس پی کے بس کی بات نہیں،کیونکہ موجودہ پاکستانی سیاست میں آنا قابل فخر مانتے ہیں باقی سیاست کس چڑیا کا نام ہے انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں۔لیکن اس سے نقصان کتنا ہوا کیا کہیں اس پر بھی غور کیا جارہاہے،تو یقینا جواب ملے گا ہرگز نہیں۔یادرہے کہ سیاست میں ہمیشہ سے خدمت کو شرف حاصل ہوا ہے،اگر آپ خدمت خلق میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ ایک کامیاب سیاستدان کے طور ابھر سکتے ہیں لیکن اگر آپ خدمت خلق کے معنی تک نہیں جانتے تو پھر آپ کا اللہ حافظ ہو، کیونکہ موجودہ ملکی حالات،ہوشر بامہنگائی پاکستانی عوام کو کچھ اس قدر ناکوں چنے چبوا چکی ہے کہ ان پر آپ کی خالی خولی بات اثر نہیںکرنے والی،اگر آپ دو چار روپے ان کی فلاح وبہبود کے لئے خرچ کرنے والے ثابت ہوتے ہیں تو ٹھیک ورنہ آپ کے نعروںپر کوئی لبیک کہنے والا نہیں ملے گا۔
تاہم ان باتوںکو بھی ضرور بالضرو ر مد نظر رکھیے گا کہ خدمت خلق ہمیشہ سے مخیر حضرات کا خاصا رہاہے،جیسے” کہاں راجہ بوج کہاں گنگو تیلی ”۔یعنی انسان کو اپنی اوقات دیکھ کر کوئی بھی بڑا کام کرنا چاہیے،اور اسی لیے بڑے بزرگ کہہ گزرے ہیں کہ سیاست ان لوگوں کا کام ہے جو دن مشرق تو رات مغرب میں گزارتے ہوں، سیاست ہرگز ان لوگوںکے بس کی بات نہیں جنہیں خود کھانے کے لالے پڑے ہوں اور چلے ہوں خدمت خلق کرنے ،کیونکہ ایسے لوگوں کے بارے میں اکثر سنا گیا ہے کہ مذکورہ افراد صرف اپنی جیب بھرنے کی غرض سے میدان سیاست میں آتے ہیں کہ جن کا مقصد اپنے غریب پڑوسی کا حق مارنا،انہیں ان کے بنیادی حقوق سے یکسر محروم کرنا اور اسی طرح کے دیگر اقدامات ،اس لئے یہ باتیں اذکار رفتہ ہوجانی چاہئیں کہ سیاست صرف امیروںکو شوبا نہیں دیتی بلکہ سیاست انہی لوگوں کو کرنی چاہیے جو ضرورت کے وقت کسی غریب کی مدد کرسکے ،اس کے زخموں پر مرہم رکھ سکے ،انہیں مصیبتوںسے نجات دلا سکے،ان کی تکالیف کو دور کرسکے نہ کہ صرف سوشل میڈیا کی حدود وقیود میں رہتے ہوئے خود کو چارلس سمجھنے لگے کہ جنہیںآتا جاتا کچھ نہیں بس فیس بک بھرنے میں مشغول ہیں۔