پچھلے پچاس برس سے خواتین نے بہت ترقی کی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو ان کی دسترس سے بچا ہو۔ صحافت، سیاست، وکالت، فارن سروس، پی آئی اے ، بنک، سپورٹس، نجی فرنچائزیں، میڈیکل، تعلیم، غرضیکہ ہر جگہ خواتین نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ اور وہ مزید آگے بڑھ رہی ہیں۔ آج ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو پاکستان بننے سے قبل اور اس کے بعدایک عرصے تک خواتین کا تعلیم حاصل کرنا نا ممکنات میں شمار کیا جاتا تھا۔ حالانکہ تعلیم حاصل کرنا عورت کا بنیادی حق ہے۔ مگر آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو تعلیم کی افادیت محسوس ہوئی تو لڑکیوں کے لیئے علم کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ ایسے والدین کی اب کثیر تعداد ہے جو اپنی بچیوں کو تعلیم دلوانے اور بعد میں ان کے لیئے ملازمت اب بُرا خیال نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی بچی اپنے اندر مستقبل میں زمانے کے سرد و گرم کا مقابلہ کرنے کی سکت پیدا کرے اور اچھے بُرے میں تمیز کر سکے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ تعلیم و تربیت کا مرحون منت ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے اس عالم میں عورت خود یہ محسوس کر رہی ہے کہ گھر کا پہیہ ایک فرد کی کمائی سے نہیں چل سکتا۔ تاہم خواتین نوکری کے علاوہ گھریلو کام کاج کی وجہ سے زیادہ دبائو میں رہتی ہیں۔ گھر کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی اور اس کے علاوہ بچوں کی دیکھ بھال کی تمام ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد چند برسوں میں ہی ان کی صحت پہلے جیسی نہیں رہتی۔ دیہات میں مقیم عورت جو زندگی کی بیشتر بنیادی سہولتوں سے لا علم ہے اور جسے اپنے حقوق کا کچھ علم نہیں۔ اس پر ہونے والے ظلم وزیادتی اور تشدد کے بارے بات کرنے والا کوئی نہیں اور یہی عورت شائد سب سے مظلوم ہے۔ شہر میں بہتر سہولتوں کے ساتھ رہنے والی عورت اگر مظلومیت کا رونا روتی ہے تو دیہاتی عورت جس کی زندگی زیادہ عذاب میں ہے۔ فرائض کی ادائیگی میں کولہو کے بیل کی طرح شب و روز حلقان ہونے کے باوجود جیسے تیسے اپنا وقت گزارتی ہے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ شہری عورت اور دیہاتی عورت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ شہری عورت تعلیم میں خود کفیل ہوکر اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لیئے لا تعداد رکاوٹوں کا سامنا کرتی ہے۔ تو دیہات میں رہنے والی خواتین کے پاس نہ تو تعلیم ہے اور نہ ہی ادب و آداب کا وہ معیار ہے جو معاشرے کو درکار ہے۔
اور خود کفالت کے مفہوم سے تو وہ قطعی نا آشنا ہے۔ انہیں تو فصل کاٹنی ہوتی ہے۔ کھیتوں میں گوڈی کرنا ہوتی ہے۔ مویشیوں کے لیئے چارہ کاٹنا ہوتا ہے۔ بھینسوں کادودھ دوہنا ہوتا ہے۔ لیکن سال بھر کھیتوں میں اپنے مرد کے شانہ بشانہ فصل بونی پانی لگانے ، جڑی بوٹیاں تلف کرنے ، گھر کا سارا کام کاج کرنے اور دوسری کئی گھریلو قسم کی مصروفیات کے باوجود پیٹ بھر کر کھانے اور دوسری بنیادی ضروریات سے ضمن میں اپنے مرد کی نظر التفات کی منتظر رہتی ہے۔ چونکہ اُن کے پاس تعلیم نہیں ہے۔ اور نہ ہی کوئی مستقبل کی راہ ۔ اس لیئے ان کی زندگی اجیرن گزر رہی ہوتی ہے۔ دیہاتوں میں آج بھی لڑکی تعلیم دلوانے کا زیادہ خیال نہیں کیا جاتا اور وہاں لڑکی زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کر بھی لے تو وہاں کا معیار ایسا ہے کہ آٹھویں جماعت تک با مشکل وہ خط تحریر کرنے کے قابل ہو پاتی ہے اور گائوں میں میٹرک کے بعد سمجھ لیا جاتا ہے کہ لڑکی نے بہت پڑھ لیا ہے۔
Education
اس لیئے زیادہ پڑھ کر کیا کرے گی۔ محکمہ تعلیم نے بھی دیہاتوں میں اکثر وبیشتر گرلز سکول ختم کر دئیے ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیہاتی خواتین مظلومیت کے انتہائی درجے پر ہیں۔ اور نہیں جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یوں تو شہری مرد بھی حاکمیت پسند ہیں۔ لیکن دیہاتوں میں مردوں نے اپنی بیویوں کو زندگی کی سبھی ضروریات سے محروم کر رکھا ہے اور ان کے نصیب میں کام کام اور بس کام لکھ دیا گیا ہے۔ اگر شہری عورت پسند شادی کرے تو لَو میرج ، اگر دیہاتی عورت پسند کی شادی کرے تو پنچائت اُسے کالی قرار دے دیتی ہے۔ اس کے پاس احتجاج کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
اس کی صحت کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ وہ جس روپ میں بھی ہے عذاب کا شکار ہے۔ اس کے خاوند کی مار تو الگ باپ اور بھائی اس پر ستم ڈھانے سے باز نہیں آتے۔ وہ ماں باپ کے گھر میں ہوں یا سسرال میں اس کے لیئے دونوں طرف مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اس سے ہر کسی کو توقعات وابستہ ہیں۔ جنہیں پور کرنے کے لیئے اس کے ساتھ بھیڑ بکریوں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کے مسائل معلوم کرنے اور انہیں حل کرنے کا کسی کو خیال نہیں۔
اس کی ضروریات سے سبھی لا علم ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ برسوں سے ظلم کی چکی میں پسنے والی دیہاتی عورت کے لیئے حکومتی سطح پر کچھ نہیں ہو رہا۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں اور اسلام کے زریں اُصولوں پر یقین رکھنے والے ان سے قطعاََنا آشنا ہو کر اپنے اپنے مفادات کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ میڈیا بھی خوتین پر ظلم و زیادتی اور تیزاب گردی کی خبریں محض سنگل کالمی لگاتا ہے۔ جو کہ خواتین کے ساتھ نا انصافی ہے۔ حکومت پاکستان ایک ٹاسک فورس بنا کر دیہاتی خواتین کے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کے لیئے فی الفور کوشش کرے تو چند برسوں میں دیہاتی خواتین کی پس ماندگی کا ازالہ ہو جائے گا۔