افغانستان (اصل میڈیا ڈیسک) افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں تشدد کی لہر خطرناک حد تک پہنچ چُکی ہے اور اس سے کابل حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو سخت نقصان پہنچے گا۔
زلمے خلیل زاد کا بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب افغانستان کے جنوبی صوبہ ہلمند میں کئی روز سے نئی لڑائی زوروں پر ہے جس کے سبب صوبے کی صورتحال ایک بار پھر انتہائی دگرگوں ہو گئی ہے۔ اتوار کو صوبے غور میں ایک خود کُش کار حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہوئے۔
اگرچہ اس حملے کی ذمہ داری اب تک کسی گروہ یا تنظیم نے قبول نہیں کی لیکن اس کے تانے بانے طالبان کی طرف سے گزشتہ جمعے کو کیے گئے اُس اعلان کے ساتھ جوڑے جا رہے ہیں، جس میں طالبان نے اپنے حملوں کا سلسلہ روک دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اقدام مشروط ہیں۔ یعنی طالبان کی طرف سے حملے روکنے پر اتفاق تو کیا گیا لیکن اس کی شرط یہ لگائی گئی کہ امریکا کی طرف سے فضائی حملے نہیں ہوں گے۔ طالبان کے ان بیانات کے باوجود اتوار کو ایک درجن سے زائد انسانوں کی ہلاکت کا سبب بننے والا یہ تازہ ترین خونریز خود کُش حملہ ہوا۔
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد نے ایک ٹویٹر پیغام میں لکھا،”تشدد نے بہت عرصے سے افغان باشندوں کو مفلوج کر رکھا ہے،اس تشدد کی لپیٹ میں آکر ان گنت افغان باشندے ہمیشہ کے لیے اپنے پیاروں سے دور ہو چُکے ہیں۔‘‘ خلیل زاد نے مزید لکھا کہ،” غور میں ہونے والا واقعہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔‘‘ زلمے خلیل زاد کے مطابق ”مذاکرات کی میز پر مراعات کے لیے تشدد کو بڑھاوا دینے کی سوچ نہایت خطرناک ہے۔‘‘ یہ طریقہ کار امن عمل کو نقصان پہنچانے کا باعث بنے گا اور یہ افغان لیڈروں کی ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے مترادف ہے۔‘‘
فروری میں قطر میں یہ مذاکرات منعقد ہوئے تھے۔
طالبان کی طرف سے زلمے خلیل زاد کی ٹویٹ پیغامات پر اب تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ گزشتہ اتوار کو تاہم طالبان نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ امریکی فضائی حملوں میں صوبے ہلمند کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی طالبان نے خبردار کیا تھا کہ امریکی حملوں کے جاری رہنے اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کی تمام تر ذمہ داری براہ راست امریکا پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
ہلمند کے صوبائی گورنر کے ترجمان عمر زواک کے مطابق پیر کے روز بھی اس صوبے کے کچھ علاقے ناد علی اور ڈسٹرکٹ ناوا میں فائرنگ کی گونج سنائی دی۔ زواک نے مزید بتایا کہ افغان ایئر فورس نے الگ الگ آپریشنز میں مختلف علاقوں میں محدود فضائی حملے بھی کیے۔ ان کا مقصد زمینی افغان فورسز کی مدد کرنا تھا تاکہ طالبان کے زیر قبضہ علاقے واپس لیے جا سکیں۔
افغانستان میں دوشت گردانہ حملوں کا سلسلہ ختم ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات ستمبر میں شروع ہوئے تھے۔ اس رسمی آغاز کے بعد تاہم مذاکرات کچھ خاطر خواہ طریقے سے آگے نہ بڑھ پائے، جس کی بنیادی وجہ اسلامی فقہ سے متعلق چند معاملات کو قرار دیا جا رہا ہے۔ مذاکرات کا تازہ ترین دور فروری میں طالبان اور امریکا کے مابین افغانستان کی طویل ترین جنگ کے خاتمے سے متعلق طے پانے والی ایک ڈیل کے بعد عمل میں آیا۔
یہ حقیقت ہے کہ ‘جاری امن مذاکرات‘ کو چیلنجز کا سامنا ہے اس کے باوجود انہیں 2001 ء میں امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد سے کئی دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کی سنجیدہ کوششوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ 2001 ء میں امریکا کی قیادت میں افغانستان پر غیر ملکی افواج کا حملےکے نتیجے میں طالبان حکومت کا تختہ پلٹا گیا تھا۔ تب دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی میزبانی یہی ملک کر رہا تھا۔ اسامہ بن لادن کو مبینہ طور پر ‘نائن الیون‘ کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔