تحریر : ریاض احمد ملک ملک خداداد میں آے روز ظلم کی لا زوال داستانیں رقم ہوتی ہیں اور ہمارے سربراہان کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ تو ڈھٹای کے غریب پروری کت جو گیت گاتے ہیں قابل دید ہوتے ہیں مجھت ان دنوں سندھ جانے کا اتفاق ہوا میں کافی عرصہ کے بعد سندھ گیا وہاں کچھ دن کے قیام میں میں نے ظلم کی جو داستانیں دیکھی ہیں سن کر دل کانپ جاتا ہے سندھ حکومت کے سربرہان جب غریب کی بات کرتے ہیں تو انہیں شرم بھی نہیں آتی میں سانگھڑ سے شروع کرتا ہوں جہاں میں رشتہ دار رہتے ہیں وہاں تھانہ منگلی کی ایس ایچ او ریاض بھٹہ تعینات ہیں وہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو پکڑ کر تھانے لے جاتے ہیں وہاں جرائم اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر است نارا ایک بڑی نہر کو کہتے ہیں کے کنارے لا کر اسے فراٰئی یعنی ماورائے عدالت قتل کر دیا جاتا ہے۔
یہاں اکر کراچی یا اندرون سندھ میں ایسا واقعہ کسی بڑیے کے ساتھ پیش آئے تو عدالت عظمیٰ سمیت سیاستدان چیخ اٹھتے ہیں کہ ماورائے عدالت قتل ہو گیا۔ مگر یہاں تو کئی بے گناہ یا گناہ گار اس کی وہشت کا نشانہ بن چکے ہیں مگر کسی کو پرواہ بھی نہیں وہاں ایک کام ہاف فرائی بھی کیا جایا جسے گٹنے میں گولی مار دی جاتی ہے میں یہ نہیں کہوں گا کہ انہوں نے جرم کیا یا نہیں پولیس اپنے طور پر مجرموں کو سزا کیسے اور کس قانوں کے تحت دئے ر ہی ہے آج تک نہ تو کسی عدالت نے نوٹس لیا اور نہ ہی حکمرانوں نے آواز اٹھائیمیں ثبوت کے طور پر ایک واقعہ پیش کرتا ہوں میں جس علاقے میں مقیم تھا وہاں ایک پٹھان کی چوری ہو گئی۔
پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا جس نے پولیس تشدد یا پولیس سمجھویا کہ تحت دس افراد کے نام دیئے جنہیں پولیس یا جرائم پیشہ افراد سے ان کے فون پر کالیں کروائی گئیں اور فون ٹریسنگ کا بہانہ بنا کر ایک نوجوان کو گرفتار کیا گیا جس پر بہمانہ تشدد کیا گیا جب کچھ بن نہ پایا تو صاحب بہادر نے روایتی ریقے سے اسے ہاف فرائی کرنے کا حکم صادر فرمایامگر بروقت علاقہ کت معززین ایس پی کے پاس پہنچ گئے اس طرح اس کت گھنوئونے منصوبے کی تکمیل پوری نہ ہوئی اور اس کے مقدر کے وہ بچ تو گیا مگر اس پر باجائز مقدمہ ضرور بنا دیا گیا کہ وہ پتھاری دار یعنی مجرموں کو پناہ دیتا ہے حالانکہ اس کی زندگی دیکھیں تو انسان کو ترس آ جاتا ہے۔
PPP
پیپلز پارٹی جو غریبوں کی حکومت کی داعویدار ہے اس نے غریبوں پر ہونے والے ظلم پر آواز کیوں نہیں اٹھائی کیا وہاں کا میڈیا اس قدر ڈرا ہوا ہے کہ اس نے بھی اس تھانیدار کی وہشت پر آواز نہیں ااٹھائی پھرایک غیر مسلم جج نے اسے بے گناہ قرار دے کر پولیس کے منہ پر تھپڑ تو مار دیا مگر کسی میڈیا والے نے یہ خبر نہیں بلائی انہوں نے پولیس کے حق میں اسی شخص کی خبربریکنگ نیوز چلا کر ثابت کیا کہ یا تو وہ پولیس لے ٹائوٹ کا کام کرتے ہیں یا پھر خوف زدہ ہیں میں کہوں کہ یہاں پولیس پارسا ہے تو یہ بھی درست نہیں مگر یہاں کا میڈیا جاندار ہونے کی وجہ سے کوئی جرائت نہیں کر سکتا پھر یہاں کے حکمران بھی جلدی حرکت میں آ جاتے ہیں کم از کم خوف کا عالم ضرور ہوتا ہے میں نے عہد کیا کہ ان کمزور لوگوں کی آواز ارباب اختیار تک پہچانے کی کوشش کروں گا جہاں کی حکومت دعیدار تو ہے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے مگر غریب کہیں تو مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور کہیں اس جیسے وہشی تھانے دار کے ہاتھوں طلم کا نشانہ بن رہا ہیانرون سندھ جہاں ڈاکو راج ہے ہسپتال میں ادویات نہیں عوام خوار ہو رہے ہیں۔
تھانوں میں انصاف نہیں میں گزشتہ روز کا زکر کروں سکھر میں کھوسہ برادری کے کوگ ایس پی پولیس کے خلاف اھتجاج کر رہے تھے کہ پولیس جونوں نے سندھ کے گلو بٹ کا کردار ادا کیا اور نہتے لوگوں پر وحشیانہ تشدد کرنے لگے جو ٹیلیویژن سکرین پر بخوبی دیکھا جا رہا تھا با وردی پولیس والے جہاں ڈنڈوں سے لوگوں کو پیٹ رہے تھے وہاں بندوقوں کے بٹ مار کر گاڑیاں تباہ کر رہے تھے جس کے ہاتھ میں جو ّ رہا تھا وہ عوام کی تباہی میں استعمال کر رہا تھا۔
اب تک نیوز نے وہاں کے ایس پی امجد شیخ سے رابطہ کیا اور اسے لائیو سب کچھ دیکھا رہے تھے مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے کہ پولیس ظلم کر رہی ہے اس وقت پورا سندھ پولیس اسٹیٹ بن چکا ہے مگر حکمران خوب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اس کے لیڈران کو دیکھو انہیں پنجاب میں ظلم نظر آ رہے ہیں مگر سندھ کے عوام سے ہونے والی زیادتی نظر نہیں آ رہی میں ان سے اپیل کروں گا کہ خدا راہ ایک نظراپنے صوبے پر بھی ڈالئے مجھے امید ہے کہ اگر ان میں زرا بھی شرم ہوئی تو وہ اس نشاندھی کا موٹس ضرور لیں گے۔
Riaz Ahmed Malik
تحریر : ریاض احمد ملک 03348732994 malikriaz57@gmail.com