تحریر: ابو الہاشم ربانی 27 اکتوبر 1947ء اسلامیان کشمیر کے لیے تاریخ کا وہ سیاہ دن جب نوخیز براہمنی سامراج نے برصغیر کی تقسیم کے مسلمہ اصولوں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے سازش و منافقت کے ذریعے 85فیصد مسلم آبادی والی ریاست جموں وکشمیرپر شب خون مارا۔ ریاست کے مہاراجہ ہری سنگھ نے خودگولی چلاکرکشمیری مسلمانوں کے قتل عام کا آغاز کیا۔ ڈھائی لاکھ کشمیریوں کوخون میں نہلادیا گیا جبکہ پانچ لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیاگیا۔ عفت مآب خواتین کی عصمتیں تارتاراور معصوم بچوں کونیزوں پراچھالاگیا۔ لیکن ان تمام ترمظالم کے باوجود نہتے مجاہدین نے ہزاروں بھارتی فوجیوں ،ٹینکوں،طیاروں، توپوں اوررائل انڈین ایئر فورس کو شکست فاش سے دوچار کیااور 4144مربع میل کا علاقہ واگزارکروالیا(الحمدللہ) برصغیر کی تقسیم اس اُصول کی بنیاد پر ہوئی تھی کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کے ساتھ شامل ہوں گے اور غیر مسلم اکثریت کے علاقے بھارت کے ساتھ۔ جبکہ ریاستوں کے بارے میں یہ اُصو ل طے پایا تھا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ ان کی غالب اکثریت کرے گی۔
ریاست جموں و کشمیر کو جو اپنے جغرافیائی محل و قوع کے لحاظ سے پاکستان کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے، کو بہر صورت پاکستان میں شامل ہونا چاہے تھا ۔لیکن بھارتی سامراج نے چونکہ پاکستان کے قیام کو دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا اور جدید بھارت کے بانی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے قیام پاکستان سے کچھ ہی عرصہ پہلے 1946ء میں ایک برطانوی ڈپلومیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے صاف طور یہ پر کہہ دیا تھاکہ اس وقت تو مسٹر جناح کا مطالبہ ”پاکستان” تسلیم کرلیں گے لیکن بتدریج ان کے لیے ایسے حالات پیدا کردینگے کہ وہ خود ہم سے یہ درخواست کریں گے کہ پاکستان کو دوبارہ بھارت میں شامل کر دیا جائے۔ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کا تمام تر دارومدار کشمیر سے نکلنے والے دریائوں کے پانی پر ہے جبکہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے کشمیر دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان کے لیے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے۔
یوں کشمیر پر قبضے کی سازش دراصل پاکستان کے وجود اور سالمیت کے خلاف بھارت کے جارحانہ سامراجی عزائم کی علامت بھی ہے اور نقطہ آغاز بھی۔ کشمیر کی جغرافیائی پوزیشن اور محل و قوع کے بارے میں معمولی معلومات رکھنے والا انسان اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جزو ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کی غالب اکثریتی آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق اسے ہر حال میں پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔ریاست جموں و کشمیر کی سات سو میل لمبی سرحد پاکستان سے ملتی ہے ۔ جبکہ بھارت سے ملنے والی سرحد کی لمبائی دو سو کلومیٹر ہے۔ جب کہ ریاست جموں و کشمیر کی تینوں اکائیاں جموں، کشمیر اور شمالی علاقہ جات (گلگت ، بلتستان،لداخ)براہ راست پاکستان سے منسلک ہے جبکہ بھارت کے ساتھ صرف جموں کا مختصر علاقہ ملتا ہے ۔ انہی وجوہات کی بنا پر ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے19 جولائی 1947ء کو ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے وہاں کے راجہ ہری سنگھ سے مطالبہ کیا کہ ریاست کا الحاق پاکستان سے کر دیاجائے۔
Indian Soldiers
25 اکتوبر 1947ء کو ڈیفنس کمیٹی آف انڈیا کا ایک اہم ترین اجلاس بھارتی دارالحکومت دہلی میں لارڈ مائونٹ بیٹن کی صدارت میں ہوا جس میں ریاست جموں و کشمیر پر حملے کا فیصلہ کیا گیا اور 27 اکتوبر کی رات بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں۔ معزول اور مفرور راجہ نے ریاست سے بھاگ کر دہلی کے حکمرانوں کے قدموں میں بیٹھ کر بغیر کسی بھی اخلاقی جواز کے ریاست کا غیر قانونی اور نام نہاد الحاق انڈیا سے کرنے کا اعلان کر دیا تھا جسے ریاست کے عوام نے کبھی بھی قبول نہیں کیا۔ ان حالات میں کشمیر پر غاصبانہ تسلط کے بعد بھارتی سامراج کو اندازہ ہوا کہ جب تک کشمیر میںمسلمانوں کی غالب اکثریت ہے اور ان کا تعلق اسلام اور اسلامی تہذیب و تاریخ سے وابستہ ہے اس وقت تک اس سرزمین پر اس کے غاصبانہ قبضے کو دوام حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کی غالب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے 1947ئ، 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے مواقع پر لاکھوں کی تعداد میں فرزندان اسلام کو شہید کر دیا گیا جبکہ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو ہجرت کر کے آزاد کشمیر اور پاکستان میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اسی طرح کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد کومزید کم کرنے کے لیے ان میں بڑے پیمانے پر خاندانی منصوبہ بندی کو رواج دیا جارہا ہے نیز مختلف حیلوں بہانوں سے بھارت کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں ہندوئوں کو ریاست میں لاکر بسانے کا سلسلہ اس کے علاوہ ہے۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو 27 اکتوبر 1947ء کو بھارت نے جو حملہ کیاتھا وہ ریاست جموں کشمیر پر نہیں بلکہ براہ راست پاکستان پر تھا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر اہل کشمیر نے اپنا تعلق و ناطہ پاکستان سے نہ جوڑا ہوتا تو بھارت کبھی بھی کشمیر پر حملہ نہ کرتا اس کا مطلب یہ کہ کشمیر کے اہل وفا کو صرف پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی تھی۔ سزا و جفا کا یہ سلسلہ 69 سالوں سے جاری ہے اس کے باوجود اہل کشمیر کی پاکستان کے ساتھ محبت میںکمی واقع نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ اس محبت کی بنیاد دنیوی اغراض و مفادات پر نہیں بلکہ دین اسلام پر ہے ۔ کشمیری حریت قائدین اور کارکنان بھارتی عزائم کی راہ میں چٹان بنے کھڑے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے، پاکستانی پرچم لہرارہے ہیں ، سینوں پر گولیاں کھا کر عہد وفا نبھا رہے ہیں۔
آزادی کی شمع پر مر مٹنے والے پروانے برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو چار ماہ مکمل ہونے کو آئے اور بھارتی بربریت آج بھی جاری ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اسلام اور آزادی کی علمبردار قوتیں اپنی آزادی اور حق خودارادیت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقا و سالمیت اور تکمیل پاکستان کی جنگ بھی لڑرہے ہیں۔ مجاہدین پاکستان کی شہ رگ جموں و کشمیر کو بھارت سے چھڑانے کے لیے اپنی جان و مال اور عزت و آبرو قربان کر رہے ہیں۔ سخت کرفیو کے باوجود کشمیر ی ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم لیے پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کررہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کے ہاتھوں میں اورشہداء کے جسموں سے لپٹے پاکستانی پرچم کشمیریوں کے اصل دیس کا پتہ بتا رہے ہیں۔ انڈیا کشمیریوں کی حق کی آواز کو دبانے اور جذبہ حریت کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے۔ مگر وادی میںجاری بدترین کرفیواور ظلم و استبدا کے باوجودکشمیریوں کی تحریک کو دبا نہیں سکا۔
Burhan Wani
بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے کشمیریوں کی لازوال قربانیاں قابل تحسین ہیں۔ پوری پاکستانی قوم کشمیری مجاہدین کی عملی امداد کرے اور ہر طرح سے سیاسی سفارتی اور فوجی امداد کی جائے۔ اگر ہم اب بھی کشمیری مجاہدین کا ساتھ نہ دیا گیا تو کبھی بھی اپنی شہ رگ کو بھارتی پنجہ استبداد سے نہیں چھڑا سکیں گے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ فریضہ ہے کہ مظلوم کشمیریوں کی ہر ممکن مدد و حمایت جاری رکھی جائے ۔ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کے ہاتھوں مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے۔ انڈیا نے اپنے غاصب فوجیوں کو کشمیریوں پر ظلم وستم کے لیے کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ ان ساڑھے تین ماہ میں وادی کا سارا نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے۔ دس ہزار سے زائد کشمیری اور ان کے قائدین جیلوں میں ڈال دیے گئے ۔ان میں سے 6 ہزار گرفتار شدگان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت اندرون وادی اور وادی سے باہر کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ ایک ہزار سے زائد لوگ آنکھوں سے محروم ہوچکے، لاکھوں طلبہ کا مستقبل دائو پر ہے۔وہاں کھانے پینے اور ادیات کی قلت جاری ہے جس کے باعث وادی میں کسی بھی وقت انسانی بحران کا خدشہ ہے۔
مودی سرکار نے تحریک کو دبانے اور کشمیریوں کے خلاف نئے ہتھکنڈے کے طور پر ہندو انتہا پسند تنظیم آرایس ایس کے اسلحہ بردار ہرکاروں کے ذریعے ریلیاں نکلوائی گئیں ۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعوے دار انڈیا ”احساس” کے جذبے سے عاری ہے ۔ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق ، سلامتی کونسل کے مستقل ممبر ممالک اور او آئی سی کے سیکرٹری جنرل اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار اداکریںاور کشمیری عوام کے خلاف انڈیا کے انسانیت کش اقدامات رکوانے کے لیے فوری آگے بڑھیں اور مقبوضہ کشمیر میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیج کر وہاں غیر انسانی جرائم کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات کا آغاز کیا جائے۔
بھارتی حکومت ہمیشہ مسئلہ کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے آئے روز پاکستان کے خلاف نت نئے پراپیگنڈے کر رہی ہے۔ کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچاتی ہے اور کبھی انتہا پسندوں کے ذریعے لوگوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کشمیریوں کی مدد کرے۔ مقبوضہ کشمیر کے لیے امدادی سامان کے قافلے اور ڈاکٹروں کی ٹیمیں روانہ کی جائیں۔ پاکستان کے خلاف بے بنیاد بھارتی پراپیگنڈے کو عالمی دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے اور سبز ہلالی پرچم لہرانے والے کشمیریوں کی آواز میں بھر پور آواز ملائی جائے۔