تحریر : رقیہ غزل پرانے وقتوں میں ایک بادشاہ نے اپنی رعایا پر ظلم و ستم کر کے بہت سا خزانہ جمع کیا اور پھر اسے سلطنت سے دور ایک بیابان غار میں چھپا دیا اس خزانے کی صرف دو چابیاں تھیں جو ایک بادشاہ کے پاس اور دوسری وزیر کے پاس رہتی تھی اور ان دونوں کے علاوہ اس خزانے کا کسی کو علم نہیں تھا ۔ایک دن بادشاہ معمول کے مطابق خزانہ دیکھنے نکلا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیاوہ خزانہ دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اچانک وزیر کا گزر وہاں سے ہوا اور اس نے دروازہ کھلا ہوا دیکھا تو بہت پریشان ہوا پھر خیال آیا کہ رات دیکھنے آیا تھا ضرور دروازہ بند کرنا رہ گیا ہوگا ۔وزیر نے جلدی سے دروازہ باہر سے مقفل کیا اور چلا گیا۔ جب بادشاہ کا دل ہیرے جواہرات اور سونا چاندی دیکھ دیکھ کر بھر گیا تو واپس دروازے پر آیا تو دروازہ بند تھا ۔بادشاہ نے دروازہ پیٹنا اورچلانا شروع کر دیا مگر کوئی وہاں ہوتا تو اس کی آواز سنتا اس کی آواز سننے والاوہاں کوئی نہیں تھا وہ واپس خزانے کی طر ف آگیا کہ اس سے دل بہلا سکے مگر چند ہی لمحوں میں اسے بھوک اور پیاس نے ستانا شروع کر دیا وہ دوبارہ بھاگ کر دروازے کی طرف گیا ۔چیخا ،چلایا مگر دروازہ بدستور ویسے ہی بند رہا اب بادشاہ کی حالت یہ تھی کہ کبھی دروازے کو پیٹتا اور کبھی ہیر ے جواہرات ہاتھوں میں پکڑ کر قہقہے لگاتا اور کہتا مجھے پانی دو۔۔۔مجھے روٹی دو ۔۔۔مجھے پانی دو ۔۔۔ بھوک اور پیاس کی شدت نے اسے پاگل کر دیا تھا آخرکار بادشاہ چکرا گیا اور اس نے ہیروں کا ایک بستر دیوار کے پاس بنایا اور اس پر لیٹ گیا مگراُس نے دنیا کو ایک پیغام دے دیا اس نے انہی ہیروں سے اپنی انگلی زخمی کی اور بہتے ہوئے خون سے دیوار پر کچھ لکھا اور دم توڑ گیا۔
حکومتی عہدیدار اور عوام بادشاہ کو تلاش کرتے رہے مگر بادشاہ نہ ملا آخر کار ایک دن کئی دن کی بے سود تلاش کے بعد وزیر اسی خزانہ کا معائنہ کرنے آیا تو تو دیکھا کہ بادشاہ ہیروں پر مردہ حالت میں پڑا تھا اور دیوار پر لکھا تھا کہ ”یہ ساری دولت اناج کے ایک دائرے کے برابر بھی نہیں ہے ”۔!افسوس پیغام چھوڑنے والے چھوڑ گئے مگر ان پر عمل کرنے والے ناپید ہوگئے ہیںکہ سبھی کچھ مفادات اور خرافات کی نذر ہو چکا ہے یہ المیہ نہیں تو اورکیا ہے کہ عدالت عالیہ نے یہ کہہ دیا کہ اس ملک کے وزیراعظم اپنے تمام تر الزامات کے ساتھ 2017 میں داخل ہونگے کیونکہ عمران خان یہ ثابت کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں کہ کرپشن ہوئی ہے سوائے متضاد بیانی کے جو کہ اتنی بھی بڑی بات نہیں ہے چلیں کچھ مصلحتیں تو درپیش ہونگی کہ یونہی ایسے فیصلے نہیں آتے مگرمسئلہ جس دولت کا ہے وہ تو ثابت شدہ ہے۔ اب یہ آپ کا ایمان کہ آپ اسے” قطری عنایت” کہیں یا ”فطری کفایت کہیں ”مگر یہ طے ہے کہ جناب آپ نے خزانہ” جمع” کیا ہے یعنی ہر کسی کی لوٹ مارپا کستان کی سیاسی تاریخ میں سیاہ باب رقم کر چکی ہے جس سے رفتہ رفتہ عوام برانگیختہ ہو رہے ہیں افسوس تو اس بات پر ہے کہ عوام نے جس جماعت پر بھی اعتبار کر کے اسے مسند پر بٹھایا اسی جماعت نے عوام کو سوال پوچھنے پر مجبور کیاجبکہ ازخود اپنے کو جوابدہ نہ سمجھا اورثابت کیا کہ بندر بانٹ کی سدا بادشاہی ہے اور یہ مفادات کی دنیا میں بہترین سیاسی حکمت عملی قرار دی جا رہی ہے جو اس حکمت عملی پر عمل نہیں کرتا پرانے پاپی کہتے ہیں کہ وہ سیاست ہی نہیں جانتا یہی وجہ ہے کہ تاوقتیکہ جو سوال کر رہے تھے وہ بھی یو ٹرن لیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ دلکش عہدے کسے اچھے نہیں لگتے
اب صورتحال یہ ہے کہ ہم 2017 میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ مذحکہ خیز رخ اختیار کر تا جا رہا ہے کہ اک طرف تو وقت سے پہلے انتخابات کا شور سنائی دے رہا ہے اور دوسری طرف ایک بار پھر دھرنا سیاست کی ہلچل نظر آرہی ہے یہی وجہ ہے کہ سیاسی قائدین اور عوام دونوں تذبذ ب کا شکار ہیں پاناما کھٹائی میں پڑ چکا ہے اور خان صاحب نے خود کو متضاد بیانیوں سے خود ہی متنازعہ بنا لیا ہے کمیشن نہ بنا تو لاک ڈائون ہوگا اور اگر کمیشن بنا تو بائیکاٹ ہوگا حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ کمیشن بنا تو کچھ نہیں ہوگا یہی وجہ تھی کہ کئی تجربہ کار جماعتیں بھی کمیشن کے قیام پر زور دیتی رہی ہیں جبکہ در پردہ حکومتی رضا مقصود تھی اس ساری صورتحال میں مسلم لیگ ن وہ واحد جماعت ہے جو متحر ک اور ثابت قدم نظر آتی ہے اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر صف بندیوں میں مشغول ہے بلاشبہ عوامی رابطوں کا فقدان ہے مگر ملکی اداروں ،محکموں ،اعلیٰ عہدوں اور بلدیاتی نمائندوں سمیت ہر جگہ پر تیزی سے بھرتیاں اور پھرتیاں جاری ہیں کہ حاکم خاندانوں کے چشم و چراغ بھی اب میدان میں اتارے چلے جا رہے ہیں یوں اگر دیکھا جائے تو سیاسی بازی پوری طرح مسلم لیگ ن کے ہاتھ میں ہے جبکہ پیپلز پارٹی پنجاب سے ختم ہو چکی ہے اور باقی صوبوں میں بھی عوامی رابطوں اور پارٹی استحکام پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔
Zardari
حالانکہ جناب آصف زرداری اس کا عندیہ دے چکے ہیں کہ میں اپنی باری لینے آریا ہوں حالانکہ ان کے ووٹر کوئی باہر سے نہیں آگئے وہی پہلے والے ہی ہیں دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کو یو ٹرن نے بوکھلا کر رکھ دیا ہے وہ اس زعم میں تھے کہ انھیں جو اہمیت حاصل ہو گئی ہے اس کی موجودگی میں اب کسی رابطہ کاری یا عوامی مینڈیٹ کی ضرورت نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنا عرصہ اقتدار دھرنوں اور بیانات کی سیاست میں ضائع کر دیا ہے اور یوں ایک بڑی تعداد ان سے بیزار اور ان کی سیاست سے خائف ہو چکی ہے اور رہی سہی کسر ان کے حلیفوں کے جوڑ توڑ نے نکال دی ہے ویسے ان کا قصور نہیں کہ وہ اپنے ہم رکاب سیاسیوں سے مات کھا جاتے ہیں رہ گئی جماعت اسلامی تو دوہرے معیار نے ان کے منشورکو” مشکوک ”کر دیا ہے جوکہ نئی بات نہیں پھر بھی اب ان کی پرانی فنکاری اور موقع پرستی کھل کر سامنے آچکی ہے کہ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ حکومت گرانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف دوسرا بیان دے دیتے ہیں کہ عوام لٹیروں اور کرپشن کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے یعنی مسلم لیگ ن سیاسی بساط پر چھا چکی ہے اگر مخالف ہوا نہ چلے اور آنکھوں میںمقدر کی ریت نہ پڑے تو الیکشن جلد ہوں یا بدیر مسلم لیگ ن کی بھاری اکثریت سے کامیابی متوقع ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ ن نے پاپولر پالیٹکس کو ہمیشہ سے اپنایاہے درحقیقت پاکستان کی ترقی کی شاہراہ میں بہت سے سپیڈ بریکر ہیں لیکن جہاںوائی فائی کی سہولت مہیا ہو جائے وہ جگہ اور وہ ادارہ ترقی کی شاہراہ پر دوڑنے لگتا ہے اور جب ترقیاتی منصوبوں کے نام پر قومی وسائل کی لوٹ مار منظر عام پرآتی ہے تو ریکارڈ کو خاکستر بنا دیاجاتا ہے کہ” نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ”کے مصداق قصہ پاک، دامن صاف ۔! گذشتہ چار سال قلم دانوں نے لکھ لکھ کر صفحے سیاہ کر دئیے کہ عوام کو بنیادی سہولیات چاہیئے مگر افسوس کہ ایسا کہنے والے کو غدار وطن کہا گیا جبکہ ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ بیانات داغتے چلے گئے کہ ترقی کا سفر جاری رہے گا ڈکٹیٹر کے دور میں صرف جیبیں بھری گئی ہیں مگر عوام کے لیے کچھ نہیں کیا گیا ہے جبکہ ہم نے عوام کو ترقیاتی منصوبے دئیے ہیں ۔ویسے منصوبے دینے سے مجھے یاد آگیا ابھی چند دن قبل ہی وزرا کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا اور اس پر وزیر اطلاعات و نشریات کا بیان سامنے آیا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہے اور تنخواہوں میں گزارا مشکل ہے اس لیے اضافہ کیا گیا ہے اور دو دن قبل محترمہ مریم اورنگ زیب کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی تاریخ کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے ممکن ہے تقریر لکھنے والوں سے غلطی ہوگئی ہو کیونکہ ابھی دو دن پہلے ہی میاں صاحب سے بھی اپنی تقریر میں غلطی ہو گئی تھی۔
گذشتہ مالی سال میں پاکستان کی برآمدات 12فیصد گھٹ کر ساڑھے اکیس ارب ڈالر رہی جبکہ مسلم لیگ حکومت نے جب 2013میں حکومت سنبھالی تھی اس وقت سالانہ ایکسپورٹ 25ارب ڈالر تھی یعنی پچھلے چار سال میں برآمدات میں 14 ارب ڈالر کی کمی واقع ہو چکی ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان نے صرف 4 ہفتوں کے اعدادو شمار دبتا دئیے جبکہ 4 سال کے اعدادو شمار چھپا لیے گئے جبکہ حالیہ خبروں کے مطابق پاکستان کی برآمدات مسلسل گر رہی ہیں جبکہ اپنی الیکشن مہم کے دوران میاں صاحب نے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ برآمداد کو 100 ارب ڈالر تک لے جائیں گے مگر یہ وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا ۔یہ حال تو معاشی ترقی کا ہے اور باقی احوال اس سے بھی بھیانک اور حیرت انگیز ہیں کہ نہ گیس ہے ،نہ بجلی نہ پانی آتا ہے اورمہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے اس پر ستم یہ کہ ادویات بھی جعلی اور خوراک بھی ملاوٹ شدہ ہے ۔روزانہ بچے بھوکے سکول جاتے ہیں مگر اس پر کوئی بھی ایکشن لینا تو درکنار کسی نمائندے کے منہ سے اعتراف بھی سننے کو نہیں ملا پورے ملک میںدودھ ،دہی ،گھی اور ان سے تیار شدہ اشیا ء اصل کی بجائے نقل سے بھی زیادہ مضر صحت ہیںاور یہ بنیادی غذائی اشیاء سرعام کھلم کھلا بکتی ہیںمگر فوڈ اتھارٹی ڈرامے بنا کر ٹی وی پروگراموں کا حصہ بنے رہتے ہیں۔
Nawaz Sharif
بہرحال اس دفعہ میاں صاحبان کے پاس ٹھوس جواز موجود ہے کہ حکومت کو آغاز سے ہی دھرنا سیاست کا سامنا تھا اور ادارے تباہی کے دہانے پر تھے پھر بھی ہم نے لاہور کو بدل کر رکھ دیا ہے اور شہروں میں میٹرو کا جال بچھا رہے ہیں جبکہ اگر آپ دیکھیں تو خان صاحب شیروانی چاہتے تھے اور اس نشہ میں وہ پاگل ہو چکے تھے انھوں نے خیبر پخوتخواہ میں سب کچھ بگاڑ دیا جبکہ ہم تو ایسی سیاست کو مقدس مشن سمجھتے ہیں ۔یہ وہ بیانات ہیں جو چند دنوں تک ہر چینل سے حکومتی ترجمان دہرائیں گے اور بیچارے عوام ان بیانات کی بھول بھلیوں میں الجھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ چلو کچھ تو سہی ۔پاکستان کا یہ المیہ بھی ہے کہ یہاں کامیابی کا مقابلہ نہیں ہوتا یہاں ناکامیوں کو گنوایا جاتا ہے کہ وہ حکمران اتنا ناکام ہوا جبکہ ہم اتنے ناکام ہوئے ہیں جبکہ اس نے تو وعدے اور دعوی ہی بڑے بڑے کئے تھے اور اگر زیادہ بات بڑھے تو عوام تک آجاتی ہے کہ انھیں منتخب کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے تھا یہ حکمرانوں کو منتخب کرنے کا معاملہ بھی کافی گھمبیر ہے کہ ووٹ کسی کو دیا جاتا ہے اور نکلتا کسی اور ہی ڈبے سے ہے ایک آدمی نے ایک سیانے سے پوچھا کہ حکمرانوں کو کیسے چننا چاہیئے تو انھوںنے مسکراتے ہوئے کہا جیسے بادشاہ اکبر نے انار کلی کو چنا تھا۔
حقیقت یہی ہے کہ موجودہ سیاستدانوں کے حالات دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ جیسے اندرون شہر کے محلہ مکین تھڑے باز سیاست میں مشغول ہیں اور اس کا مظاہرہ پارلیمینٹ میں کسی سنسسر پالیسی کے بغیر دیکھنے کو ملتا ہے جو لوگ عوامی مسائل حل کرنے کی جگہ پربھی ذاتیات کو ترجیح دیتے ہیں اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہیں وہ ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کے خواب کیسے دکھا سکتے ہیں ؟ جب حقائق سامنے آتے ہیں تو ٹسوے بہاتے ہیں اور جب الزام لگیں تو باتیں سناتے ہیںدکھ یہ ہے کہ خوف خدا نہیں کرتے حالانکہ سبھی ڈھٹائی سے کھاتے ہیں خواجہ حنیف تمنا نے کیا خوب کہا ہے کہ کبھی اقرار ہے جاناں ، کبھی انکار ہے جاناں کبھی شہ زور لگتے ہو ،کبھی کمزور لگتے ہو کہو یہ کیا وفا ہے تم بدلتے ہو بیاں ہر دم مجھے تو تم محبت کے پناما چور لگتے ہو
بہر کیف انہی گھمبیر حالات میں ہم 2017 میں داخل ہو جائیں گے کیونکہ یہ سب کچھ بھی نیا نہیں ہے کیونکہ ہر صف اکثریتی طور پر چور موجود ہیں اور اس بات کو سبھی تسلیم کر رہے ہیں کہ” بُکل دے وچ چو ر نی میری بکل دے وچ چور ” لیکن یہ کوئی نہیں کہتا کہ ہمارا بھی احتساب ہو جبتک ضمیر کی خود احتسابی کا عمل شروع نہیں ہوگا احتساب کا عمل بے معنی ہے اور دکھ تو یہی ہے کہ یہاں ضمیر نہیں کانپتے زمین کانپ جاتی ہے۔