تحریر : محمد جاوید اقبال صدیقی کسی بھی بات کو یا کسی بھی عمل کو نہ جواز سے سمجھایا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جانا چاہیئے، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ماننے اور منوانے کے لئے ” جواز ” کی تلاش نہیں کی جانی چاہیئے، مثلاً ایک آدمی کا دوسرے بے قصور آدمی کو، چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، قتل کرنا غلط ہے تو بس غلط ہے، اسے ماننے کے لئے یہ سوال نہیں کیا جانا چاہیئے کہ غلط کیوں ہے۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ کہیں رہتے ہیں تو وہاں جس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہو اسے اقلیتوں کو ان کے کمتر ہونے کا احساس دلانے کی بجائے یہ احساسِ اوّلین دلانا ضروری ہے کہ سبھی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں، اس لئے ان میں باہم فطری کشش ہوتی ہے، محبت ہوتی ہے اور اسے ختم کرنے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی لیکن نہایت ہی افسوس کی بات ہے کہ آج شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں انسانوں کی حفاظت پر خاطر خواہ توجہ دی جا رہی ہو، کئی ملکوں میں تو صورتحال بدترین ہے۔ ان ملکوں میں ہندوستان اور پاکستان بھی شامل ہے۔ یہاں شاید ہی کوئی دن پُر امن گزرتا ہے۔ یوحنا آباد کا واقعہ ہی لے لیں ، میڈیا کے مطابق نعیم قصور سے اپنے دکان پر کام کے لئے آ رہا تھا کہ نہ معلوم کیسے وہ بلوائیوں کے ہتھے چڑھ گیا اور اپنی زندگی کی بازی بھی ہار گیا۔ ایسے لوگ بظاہر انسان نظر آتے ہیں مگر ان کے پاس اپنی ہر حیوانیت کے لئے جواز ہوتا ہے، انہیں کوئی یہ تو سمجھائے کہ انسانوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے لئے جواز نہیں دیا جا سکتا، البتہ ان کے خلاف کاروائی کرکے سمجھایا جا سکتا ہے تو ضرور سمجھایا جائے۔
لاہور کے علاقے یو حنا آباد میں چرچوں میں ہونے والے دھماکوں میں تقریباً دیڑھ درجن لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں اور ستر کے قریب زخمی بھی ہوئے، لیکن اُس کے بعد بلوائیوں کی طرف سے جو کچھ کیا گیا ، کیا وہ کسی تخریب کاری سے کم ہے، اُس میں بھی کئی لوگ جان سے گئے، دکانیں الگ لوٹی گئیں، کولڈرنک سے بھرے ٹرک کو بھی لوٹ لیا گیا جسے میڈیا نے خوب دکھایا تھا اس لئے اس میں جھوٹ کا عنصر ہے ہی نہیں۔ دنیا میں انسان کی بے شمار چھوٹی بڑی ضرورتیں ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، سواری، امن و امان، صحت، نیند وغیرہ۔ مگر انسان کی سب سے بڑی ضرورت ” ربانی رشد و ہدایت ” بھی ہے۔ اس ضرورت سے اہلِ ایمان ایک لمحہ کے لئے بھی غافل ہونے کا تحمل نہیں کر سکتے کہ ” جو لمحہ غافل وہ لمحہ کافر” اس کے حصول کے لئے وہ ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دے سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ اتنی بڑی اور اہم ضرورت ہے کہ اس کے بغیر انسان دنیا کی چند روزہ اور آخرت کی لا محدود زندگی میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ ایسی نا گزیر ضرورت ہے کہ با وضو قبلہ رو ہر نماز میں دست بستہ صراطِ مستقیم کی دعا بارگاہِ خدا وندی میں کی جاتی ہے۔جب انسان کی دنیاوی ضرورتیں احسن طریقے پر پوری نہ ہوں تو وہ مسائل کی شکل و صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ آج دنیا میں انسانوں کے سامنے بڑے بڑے مسائل ہیں مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے شمار مسائل انسانوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ انسانوں کے بے شمار چھوٹے بڑے مسائل ہیں جیسے بھوک، پیاس، جہالت، خوف، بدامنی ، نا انصافی ، بے روزگاری، ظلم، غربت وغیرہ۔ان سب مسائل کا سدِ باب کرنا حکمرانوں کا اوّلین ترجیح ہونا چاہیئے۔
قوموں کے عروج و زوال کا قانون ایک مستقل ، بے لاگ اور اٹل قانون ہے۔ قومیں اس قانون کے تحت ہی تشکیل ، تعمیر شناخت، ترقی و استحاکم، عروج و کمال، انحطاط و زوال کے مراحل سے گزرتی ہوئی بالآخر تباہی و خاتمے سے دو چار ہوتی ہیں۔ انسان کے عروج و زوال کا انحصار مادی اور اخلاقی دونوں ہی قوتوں پر ہے۔ اگر بغور اور سچے دل سے دیکھا اور سمجھا جائے تو فیصلہ کن کردار اخلاقی قوت ہی ادا کرتی ہے۔قوموں کی زندگی میں اخلاق کی اس قدر اہمیت ہے کہ انسان کی نفسانی خواہشات اور فطرت صالح میں اگر کوئی قوت توازن پیدا کرتی ہے تو وہ عقل و بصیرت ہے۔
Lahore Protest
اس کے نتیجے میں انسان میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف پروان چڑھتے ہیں جو ایک انسان کو حیوان سے ممتاز کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر نفسانی خواہشات انسان پر غلبہ حاصل کر لیں تو اس کی عقل ماری جاتی ہے، اس کے اندر سے اعلیٰ اخلاقی اوصاف و اقدار مٹ جاتی ہیں اور وہ جانوروں کی سطح سے بھی گر کر گھٹیا حرکات کا ارتکاب کرنے لگتا ہے خود اپنے ہی ملک میں فسطائی قوتوں کے جارحانہ عمل سے جو صورتحال بنتی جا رہی ہے وہ کسی بھیانک طوفان کا ہی پیش خیمہ ہیں۔ ہم نے پہلے ہی اپنی بات کہہ دی تھی کہ اب اکیسویں صدی ہے، عوام باشعور ہوگئے ہیں، حکمران چاہے جو بھی ہوں انہیں عوام کے لئے اب Deliverکرنا پڑے گا جب ہی کامیابی ہوگی وگرنہ ایسی صورتحال روز افزوں دیکھنے کو ملے گا
جو ملک کے طول و عرض میں دیکھا بھی جا رہا ہے۔اگر عوام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہیں کیا تو سب ہی اپنا بوریا بستر گول سمجھیں۔ اختلافِ رائے رکھنا جمہوریت کی خوبصورتی ہے ، مگر اس کا مقصد ملک کی ترقی اور لوگوں کی بہتری ہونی چاہیئے۔ ہمارے نظام نے ہمیں بہت سارے پلیٹ فارم فراہم کر رکھے ہیں جن پر عمل کرکے ہم سب اپنے وطن کو ترقی کے مراحل طے کراتے ہوئے ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں، کاش کہ کوئی لیڈر اس پر عمل کرتے ہوئے ملک کے عوام کی داد رسی کرے۔ منصوبے بنائے جاتے ہیں مگر اس پر شفاف طریقے سے عمل در آمد نہیں ہوتا۔ مثالی جمہوریت اور قانون کی بالا دستی کا مظاہرہ کرنا سب کا فرض ہے۔
دراصل جب تک دنیا کے تمام لوگوں کا یہ مزاج نہیں بنے گا کہ بے قصور انسانوں کے خلاف ہونے والا تشدد ہر حال میں قابلِ مذمت ہے، تب تک تشدد سے پاک دنیا کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ تشدد کو مذہب، نسل، ثقافت اور خطے سے وابستہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس طرح کے واقعات سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے اور جلد از جلد گناہگاروں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جائے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام کی یہ آرزو کب پوری ہوگی اور انہیں امن و امان نصیب ہوگا۔ حکومت کب اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کب اور کیسے کرتی ہے۔