کنواری ہی سے کیوں…..؟

Male Female

Male Female

تحریر: بدر سرحدی
ولادت عیسےٰ المسیح پر خصوصی
خدا کے اس انتظام میں یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ تجسًم کے منصوبہ کی تکمیل کے لئے ایک کنواری کا انتخاب کیوں کیا گیا ؟جب اُس کا اپنا قانون ،کہ مرد عورت کے ملاپ ہی سے نسل بڑھے گی معطل ہو گیا آگے بڑھنے سے پہلے زرہ ٹھہر کر اِس لفظ کیوں پر غور کرتے چلیں ،اگر یہ لفظ کیوں ،انسانی ذہن میں ،اور پھر تحریر اور لغت میں نہ آتا ،تو آج بھی انسان ماضی کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہوتا اور یہ لفظ ”کیوں ”کا اعجازہے کہ انسان نے اُس کی مدد و راہنمائی یا اِسے حل کرتے کرتے قدرت کے سر بستہ رازوں کو بے نقاب کیا،بحر و بر پیمائش کرتے ہوئے فظاؤں کو بھی روندتا چلا گیا ۔ مگر یہ ”کیوں” اب بھی اپنی جگہ اِستادہ حل کا متلاشی ہے ۔اور یہ کبھی حل نہیں ہو سکتا، آج میرے سامنے بھی یہی لفظ ”کیوں ” موجود ہے کہ خدائے عزوجل نے اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لئے عورت اور ایسی عورت جو کنواری اور مرد سے ناواقف ہو کا انتخاب کیوں کیا.قرآن مجید میں تو مریم صدیقہ سورة العمرن آیت٤٥ میں ترجمہ، اور جس وقت کہا فرشتوں (یہاں قابل غور یہ کہ فرشتوں کا گروہ ہے..)اے مریم تحقیق اللہ بشارت دیتا ہے تجھ کو ساتھ ایک کلمہ کے (یہاں کلمہ کی بشارت ہے …)نام اُس کا مسیح عیسےٰ بیٹا مریم کاآبرو والا بیچ دنیا اور آخرت میں…! کیونکر ہوگا میرے بیٹا نہیں چھوأ کسی مرد نے،کہا اسی طرح پیدا کرتا ہے جو ….اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالےٰ نے بی بی مریم کو تمام جہانوں اور زمانوں کی عورتوں پر فضیلت دی اور برگزیدہ اور پاک کیا …. (یہاں اللہ تعالےٰ کے اُس علان کے مطابق کے پہلی عدالت میں اللہ ربالعزت نے ملزم ابلیس کو کہا میں تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈاکوں گا.. …جبکہ نسل کا تعلق آدم سے مگر یہاں عورت کی نسل کہا گیا …)سورة مریم میں فرمایا گیا

، اور جب مریم خلوت میں تو ہم نے اپنی روح کو بشر کی صورت مریم کے پاس بھیجا،مریم نے کہا میں پناہ پکڑتی ہوں رحمن کی تجھ سے اگر تو ہے پرہیز گار ..کہا نہیں میں بھیجا گیا ہوںپروردگا ر تیرے کا کہ بخش جاؤں تجھ کو لڑکا پاکیزہ …..مریم نے اپنی پاکیزگی اور کنوار پن کی گواہی دیتے ہوکہا کیونکر ہوگا میرے بیٹا کے مجھے کسی مرد نے چھوأ نہیںنہ ہی بدکار….کہااسی طرح سے کہا پرور دگار تیرے نے کہا وہ اوپر میرے آسان ہے اور کریں اُ س کو نشان واسطے لوگوں کے….١!!اور یہ نشان ازل سے ابد تک تورہ ( h’rAt)پرانے عہدنامہ کاعبرانی نام ہے جسکی پہلی کتاب براشیت ( tyVarB)جسکا ترجمہ پیدائش کیا گیا ہے ،اس کتاب کے پہلے تین ابواب تخلیق کائنات پر روشنی ڈالتے ہیں ۔یہاں تخلیق کائنات اور کُل موجودات کے لئے 6 دنوںکاذکر پایا جاتا ہے ۔مگر بیرونی کسی ٹھوس شہادت کے حوالے سے وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اِس ایک دن کا دورانیہ کتنا طویل تھا ،یا پھر رائج الوقت کے 24گھنٹوں کے مساوی تھا ۔بہر حال یہ قیاس اغلب ہے کہ ایک دن کا مطلب گویا ایک زمانہ یا ایک عالم بھی ہو سکتا ہے اندرونی شہادت سے اِس قیاس کو تقویت ملتی ہے ،جب زبور90میں بزرگ موسیٰ کی دعا میںوہ کہہ رہا ہے کہ ،تیری نظر میں ایک دن ہزار برس کے برابر اور ہزار برس ایک دن کے برابر ہے ،اور پطرس رسول بھی ”2پطرس8;3میں فرماتے ہیں ائے عزیزو یہ خاص بات تم سے پوشیدہ نہ رہے کہ خداوند کے نزدیک ایک دن ہزار برس کے برابراور ہزار برس ایک دن کے برابر ہے۔

Allah

Allah

اور پیدائش کی کتاب کے دوسرے باب کی 17ویں آیت میں مرقوم ہے اور آدم کے لئے خدا کا پہلا حکم ہے ”جب تو نے پھل کھایا تو مرا ”،(قرآن کی سورہ البقر میں…آدم اور حوا کو جنت میں رکھا ،اور کہ شجر کے قریب مت جانا ورنہ ہو جاؤگے ظالموں سے..ابلیس نے ورغلایا کر ڈگایا …پس نکال دیا دونوں کو جنت سے (٣٥)…) آگے چلکرہم یہ پڑھتے ہیں ]باب 5[آدم کی عمر کے برس 930تھے جب وہ مرا ، یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے مرنے کا وہ تصورجِسے آج سمجھا جاتا ہے یا یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ ایک شخص مر گیا اور اُسے اٹھاکر زمین میں دبا دیا گیا یا جلا دیا گیا ۔ مرنے کا مطلب یہاں خدا کی حضوری سے اخراج ہے ،۔اور پھل کھانے یا خدا کے حکم کو عدول کرنے سے اُسکی اصلی حالت بگڑ گئی، اُس پر سے پاکیزگی کا لبادہ اتر گیا اور اس کی جگہ گناہ نے لے لی ،چونکہ خدا کو اپنی حسین تخلیق آدم سے نفرت نہیں بلکہ گناہ سے یا گناہ کی غلاظت سے نفرت ہے سو آدم اس غلاظت بھرے لبادہ میں پاک مقام پر رہ نہیں سکتا تھا ،تب خدا نے اُسے اپنے حضور یا اپنی رفاقت سے یا جنت سے نکال دیایا الگ کر دیا ،اور یہی وہ مرنا تھا جس کا اعلان باب 17;2میں کہا گیا تھا کہ جب تو نے پھل کھایا تو مرا ،اور پھل،اب یہ پھل کیا تھا اس پر بحث نہیں،دو افراد کے معاشرے کی لئے یہی شریعت تھی ،یا حکم توڑنے ہی سے اُس پر سزا لاگو ہو گئی ،اور وہ اسی گھڑی انتقال کر گیا یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہو گیا ،اور خدا کی حضوری سے نکال دیا گیا ،اور یہی وہ موت یا مرنا تھا ،جبکہ طبعی موت 930برس کے بعد واقع ہوئی جب اسے خاک کے سپرد کیا گیا جہاں سے وہ لیا گیا تھا ۔

چونکہ ابلیس نے انتہائی عیاری سے انسان میں خدا کی صورت اور شبیہ کو بگاڑ دیا تھا اور آدم نے اِسے اپنی کوشش سے بحال کرنے کی کوشش کی پیدائش 7;3یہاں آدم اپنی کوشش ،یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے اعمال سے یا کسی اور زریعہ سے وہ اپنے گناہ کو ڈھانپتا ہے جس سے خدا کو نفرت ہے ۔مگر ایسا ہو نہیں سکتا ،چونکہ گناہ آ دم سے سر زد ہوأاور اس کی ابتدائی صورت بگڑ گئی اور وہ اپنی کسی کوشش و کاوش سے اس بگڑی ہوئی حالت کو پھر سے اصلی حا لت میں نہیں لا سکتا ،۔یرمیاہ نبی یہ پیغام دے رہا ہے ، 23;13”اگر حبشی اپنے چمڑے اور چیتا اپنے داغوں کو بدل سکے تو تم بھی جو بدی کے عادی ہو نیکی کر سکو گے” ،مطلب یہ کہ گناہ اور بدی انسان کی سرشت میں آگئی تھی ،۔پولوس رسول نے رومیوں کے نام خط میںفرمایا23;3،اس لئے سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں ،اس لئے کے جد امجد کا گناہ پوری نسل آدم میںمنتقل ہوتا رہا ہے ،اور ہوتا رہے گا ۔ اب اس گناہ یا ابدی موت سے نجات کا واحد راستہ یہی تھا کہ خدا ہی اس کا انتظام کرے چنانچہ خدا نے پیدائش 15;3پہلے دن ہی اپنے اس الہٰی منصوبہ کا اعلان بھی کر دیا تھا پھل کھانے یا خدا کا حکم توڑنے سے قبل آدم اور حوا پاکیزگی کی حالت میں تھے ،ایسے وقت میںا بلیس نے عورت سے کلام کیا گویا خدا کے انتظام کو بگاڑنے کے لئے عورت کو استعمال کیا ،چنانچہ عورت نے اس کلام کو قبول کیا ،اور اس طرح خدا کا فرمان جو آدم کی زندگی تھا کو عدول کیا اور نافرمانی کے اس گناہ کو آدم کے زریعہ پوری نسل آدم میں منتقل کیا یا منتقل کرنے کا سبب بنی اور اسی گناہ کی طرف جو نسل آدم میں منتقل ہوأ اور ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے بزرگ داؤد نے اس موروثی گناہ کی طرف اشارہ اپنی دعا میں کیا ہے ۔ا ور پولوس رسول بھی اِسی گناہ کی طرف اشارہ کرتے ہؤئے رومی کلیسیا کو لکھتے ہیں ”رومیوں 12;5ایک آدمی کے ذریعہ گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب موت آئی ” ،اور اِس موت نے خدا اور انسان کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی ۔چونکہ ایک آدمی یعنی ظاہر ہے

Women

Women

آدم اول کے ذریعہ یہ گناہ دنیا میں آیا ،اور اب مثلاً آدم اول ایک دوسرا آدم ثانی ضروری تھا جو اِس موروثی گناہ کا کفارہ ادا کر کے اُس حائل خلیج کو پاٹ سکے ،مگر نسلِ آدم سے پیدا ہونے والا اِ س موروثی گناہ سے مبرا ہو نہیں سکتا چونکہ کفارہ کے لئے شرط تھی کے بے عیب اور موروثی گناہ بلکہ ہر آلائش سے پاک ہو اِس لئے خدا نے اپنے انتظام کے تحت پہلے پاک اور بے عیب کنواری ہی کو منتخب کیا ،تاکہ محض عورت سے اُس فطری ملاپ کے بغیر عورت کی نسل سے ہو ،اور اُس اعلان کی تکمیل کہ میں تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا کہ وہ تیرے سر کو کچلے گی اور تو ……..پیدائش 15;3،اِسی موروثی گناہ کی طرف بزرگ ایوب نے بھی واضح طورپرکہا ہے ایوب باب 4;14 ناپاک چیز میں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے ؟ ماہرین کی ایوب سے متعلق اراء ہیں ایوب راستباز شخص ہے اِس کتاب میں بنی اسرائیل کے یہواہ کا ذکر نہیں دوئم بنی اسرائیل کاقربانی کا طریقہ بھی نہیں اِ س لئے یہ خیال اغلب ہے کے ایوب کا زمانہ ابرہام کے آس پاس کا ہے وہ یہ واضح کر رہا ہے کے عورت اور مرد کے فطری ملاپ سے پیداہونے والا اُس موروثی گناہ کی وجہ سے ناپاک ہو گا ۔

چونکہ ہر خالق کو اپنی تخلیق سے محبت اور لگاؤ ہوتا ہے اور یہ آدم اُس خالقِ مطلِق کی انتہائی خوبصورت ترین تخلیق تھی ،اِسلئے خدا کو اِس سے بے پناہ محبت تھی اور یہ اِسی محبت کا ہی اِظہارتھا جِسے یوحنا رسول نے یوں بیان کیا ہے ،” یوحنا 16;3خدا نے دنیا سے اِیسی محبت کی کہ اُس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے ”۔مرنے اور ہلاک ہونے میں بائیبل کی رو سے ان کے مفہوم میں بھی فرق ہے ،مرنا اور معنی رکھتا ہے اور ہلاک ہونا ایک اور معنی رکھتا ہے ،اور یہ خدا کی طرف سے بخشش تھی جِسے افسیوں کے خط میں یوں بیان کیا گیا ہے ،اگر انسان کو نجات ملی یا نجات کا انتظام ہوأتو یہ انسان کی اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کے فضل ہی سے ممکن ہوأ ہے ۔
اور اب خدا نے پھر عورت ہی کو جو کنواری اور پاکیزگی کی حالت میں مرد سے ناواقف ہو نجات کے اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے منتخب کیا ۔جس طرح عورت کے ذریعہ جو پاکیزگی کی حالت میں تھی گناہ کی مرتکب ہوئی ۔ پہلی عورت نے ابلیس کا کلام قبول کر کے خدا کا حکم عدول کیا ، اُسی طرح اب دوسری عورت جو کنواری مرد سے ناواقف پاکیزگی کی حالت میں تھی نے خدا کا کلام قبول کیا ،لوقا 28;1،اور عورت نسل میں مبارک ہو کراُسی کلام کے تجسم ہونے کا زریعہ بنی اور یہی خدا کا اپنا منصوبہ تھا ،کہ جس طرح ،حوا،کے ذریعہ آدم کی صورت بگڑ گئی اور وہ خدا کی ازلی رفاقت سے محروم ہو گیا ۔اور اب اُسی طرح کنواری عورت کے ذریعہ آدم کی بگڑی ہوئی صورت کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا جائے ۔آدم کو واپس اس مقام تک لانے کے لئے آدم کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار اپنے بیٹے کے کفارہ کے زریعہ کیا ۔

کفارہ بغیر خون دئے ممکن نہیں تھا اور یہی اس کا اپنا انتظام تھا ،یسعیاہ اِس کفارہ کے منظر کو دیکھتے ہوئے بیان کر رہا ہے باب 9,7;53، ”وہ ستایا گیا تو بھی اس نے برداشت کی اور منہ نہ کھولا جس طرح برہ جسے ذبح کر نے کو لے جاتے ہیں ،اور جِس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا” اِسی حوالہ کو اعمال 32;8،میں رسول بیان کر رہا ہے ۔متی 63;26،میں بھی وہ خاموش نظر آ رہا ہے ۔اور مرقس 61;14میں بھی اُسے جب پیش کیا وہ خاموش رہا ہے ۔اور پطرس رسول اپنے پہلے خط 23;2میں بیان کرتا ہے ،کہ اُسکے مار کھانے سے ہم نے شفا پائی کہ وہ ہمارے گناہ خود پر لئے صلیب پر چڑھ گیا ، اور یہی وہ کفارہ تھا ۔،ماضی میں جانوروں کو کفارہ کے لئے زبح کیا جاتا،لیکن کِسی جانور کے خون سے آ دم کے موروثی گناہ کا کفارہ ممکن نہیں تھا ۔

اور اس کفارہ کے لئے خدا کا اپنا منصوبہ تھا ۔جِسے یوحنا رسول 13;1میں یوں بیان کرتا ہے ”وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے اور نہ ہی انسان کے ارادے ،بلکہ خدا سے پیدا ہوأ”وہ مزید بیان کرتا ہے ”ابتدا میں کلام تھا ،کلام خدا کے ساتھ تھا ،اور پھر یہی کلام وقت مقرر پر ایک کنواری کی طرف اپنے منصوبے کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ” بلکہ ایک پاکیزہ کنواری میں منتقل کیا گیا ،اور پھر یہی کلام مجسم ہوأ ، ۔اور یہی کلام مجسم تھا جو ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا ،جِسے یوحنا بپتسمہ دینے والا دیکھ کر الٰہی ہدایت سے فوراًپکار اُٹھا ، یوحنا ،29;1،دیکھو خدا کا برہ جو دنیا کا گناہ اٹھا لے جاتا ہے ۔چونکہ کفارہ کے لئے کلام کا مجسم ہونا قرار پا چکا تھا ،جس کا اعلان پیدائش 15;3،میں کیا گیا تھا ۔اِسی لئے خدا نے اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لئے اور انسان کی ابدی حیات و نجات کے لئے ایک پاک دامن کنواری ہی کا انتخاب کیا ۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر: بدر سرحدی