تحریر : محمد نورالہدیٰ معروف اینکر مہر بخاری نے یکدم سے دوپٹہ لینا شروع کیا تو اس قریبی حلقوں سمیت دیکھنے ، سننے والے بہت حیران ہوئے۔ کسی نے استفسار کیا تو مہر بخاری نے کہا کہ جب لڑکیاں اسے اپنا رول ماڈل کہتیں تو وہ سوچتی کہ کیا وہ اس قابل بھی ہے کہ کسی کیلئے رول ماڈل بن سکے؟ ۔ بہت غور کرنے کے بعد اس نے خود کو تبدیل کیا اور یوں اس کے سر پر دوپٹہ آیا جسے خواتین نے بہت سراہا ۔ گذشتہ دنوں خیبر پختونخواہ کی ایک پردہ دار خاتون کی تصویر سوشل میڈیا پر کافی وائرل رہی ۔ 23 سالہ رخسانہ بم ڈسپوزل سکواڈ کا حصہ ہے ، جو مکمل پردہ میں رہتے ہوئے آئوٹ ڈور پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہی ہے ۔ رخسانہ کا کہنا ہے کہ نقاب نے اس کی آئوٹ ڈور ڈیوٹیز کی راہ میں کبھی رکاوٹ پیدا نہیں کی۔
حفصہ جاوید سرکاری آفیسر ہے جو پردہ میں رہتے ہوئے تمام تر پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہی ہے ۔ مردوں کے اس معاشرے میں وہ اپنے امور انجام دینے میں ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہے ۔ وہ ذرائع ابلاغ کے تمام ستونوں سے بھی مضبوط روابطے میں ہے اور حکومت کے اعلیٰ سطحی ذمہ داران ، سرکاری اداروں اور سیاستدانوں کے درمیان بھی بطور پُل کردار ادا کر رہی ہے ۔ آج کئی مرد افسران حفصہ کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔ اس نے اپنی تمام تعلیم نقاب میں رہتے ہوئے اور کوایجوکیشن میں حاصل کی ۔ حفصہ کہتی ہے کہ وہ اپنی ماں کا ”بیٹا ”ہے ۔ وہ کلاس میں ہو یا دفتر میں ، ہمیشہ نقاب میں رہنے کے باوجود خود کو ایزی محسوس کرتی ہے ۔ وہ اپنی کلاس اور کولیگز کے ساتھ ٹورز اور دیگر دورہ جات پر بھی جاتی ہے ، جبکہ حکومتی سطح پر دو مرتبہ بیرون ملک بھی ٹریننگ پر جاچکی ہے ، لیکن اپنے حجاب سے کبھی کوئی مشکل یا جھجک محسوس نہیں ہوئی ۔
قاضی حسین احمد مرحوم کی صاحبزادی سابق ایم این اے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی سے کون واقف نہیں ؟ میں نے انہیں پاکستان میں سب سے متحرک باپردہ خاتون پایا ۔ وہ بیک وقت کئی ملکی و بین الاقوامی سیاسی و غیر سیاسی پلیٹ فارموں کا حصہ ہیں اور دنیا کے بے شمار ممالک میں اکثر دورہ جات پر جاتی رہتی ہیں ۔ لیکن کہیں بھی جاکر وہ ہمیشہ اپنی روایات کی امین رہیں ۔ سمیحہ راحیل قاضی کہتی ہیں کہ حجاب / پردہ دین سے وابستگی کی پہچان اور مسلمان عورت کا بنیادی ، فطری حق ہے ۔ ان کا کہناہے کہ حجاب محض سر لپیٹنے یا منہ ڈھانپنے کا نام نہیں بلکہ ایک مجموعہ احکام اور اسلام کے نظام عفت و عصمت کا نام ہے جو معاشرے کو پاکیزگی بخشتا اور عورت کو توقیر عطا کرکے اسے محفوظ بناتا ہے ۔ سمیحہ راحیل کو اپنے باحجاب ہونے پر فخر ہے ۔ ان کی شخصیت ہر مقام پر یہ حقیقت باور کراتی ہیں کہ حجاب سوشل تعلقات کو مشکل ہر گز نہیں بناتا ۔
حجاب سے متعلق ایسی بے شمار مثالیں ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی ہیں جو ہمارے معاشرے کے وقار میں اضافے کا باعث بنتی ہیں ۔ پاکستان کی پہلی باحجاب لیڈی پائیلٹ شہناز لغاری اور ایشیا کی پہلی بم ڈسپوزل اسکواڈ کی ایلیٹ کمانڈو خواتین پری گل ، ثمینہ اور رخسانہ کا تعلق بھی اسی معاشرے سے ہے جو بھاری ہتھیاروں اور مشینوں کا استعمال کرتی ہیں اور ان کا نقاب ان کی ڈیوٹی کی انجام دہی میں رکاوٹ نہیں بنتا ۔ مذکورہ مثالوں سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ حجاب فرد کی ترقی یا پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کی راہ میں رکاوٹ ہر گز نہیں ، دنیا میں مہر ، رخسانہ ، پری گل ،ثمینہ ، سمیحہ راحیل ، حفصہ ، جیسی کئی رول ماڈل خواتین ہیں جو مختلف شعبہ جات میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ انہیں کوئی مشکل یا پشیمانی نہیں ، بلکہ وہ مطمئن ہیں ۔ اس کے برعکس بیرونی دنیا پر نظر ڈالیں تو کتنے ہی ممالک ایسے دکھائی دیں گے جہاں حجاب کی تحریک خون سے رنگین ہے … ہمیں کئی خواتین کے واقعات ملتے ہیں جنہیں حجاب کرنے کی پاداش میں کہیں یونیورسٹی سے نکالا گیا تو کہیں دفاتر اور دیگر پبلک مقامات سے بے دخل کیا گیا ، اور کہیں اس پر نوبت متعلقہ خاتون کے قتل تک جاپہنچی … بے شمار ممالک میں خواتین کے حجاب پر سرکاری طور پر پابندی عائد ہے۔
صد شکر کہ وطن عزیز پاکستان ایسے مصائب سے محفوظ ہے ۔ ہاں ، اکا دکا واقعات ضرور ہماری نگاہ و سماعت سے ٹکراتے ہیں ، مگر چونکہ ہمارا کلچر اس ضمن میں منفرد ہے ، لہذا عوامی احتجاج اور مداخلت پر ان رکاوٹوں پر قابو پالیا جاتا ہے … ہر ملک میں حجاب کے مختلف انداز ہیں ۔ البتہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان سٹائلز کی آڑ میں آج حجاب فیشن کا روپ اختیار کرگیا ہے ۔ میری ایک یونیورسٹی لیول کی طالبہ سے اس ضمن میں بات ہوئی ۔ پوچھا کہ تمہیں کس نے حجاب پر مائل کیا ، تو وہ کہنے لگی کہ اپنی فیملی میں وہ واحد باحجاب لڑکی ہے اور وہ اسے محض فیشن کے طور پر اختیار کرتی ہے … یونہی ایک اور لڑکی سے بات ہوئی تو اس نے اسے فیشن سے تشبیہ دینے کے علاوہ اپنی حفاظت کا بھی ذریعہ گردانا ۔ غرض حجاب اختیار کرنے والی ہر خاتون کا نقطہ نظر اس ضمن میں مختلف ہی ہوگا ۔
ہمارے ہاں ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ دفاتر میں ملازمت کی غرض سے جانے والی خواتین میں سے زیادہ تر خوبصورت اور لباس و بدن کی تراش خراش والیوں کو فوقیت دی جاتی ہے ۔ جیسے وہ خاتون نہیں کوئی شو پیس رکھ رہے ہوں ۔ بیشتر خواتین مجبوری کی حالت میں ان کے معیار پر پورا اترنے کی کوشش کرتی ہیں اور بے حجابی اختیار کرتی ہیں ۔ نجی دفاتر و کمپنیوں ، کال سنٹرز ، بس ہوسٹس ، ائیر ہوسٹس ، ہوٹلوں اور ڈیپارٹمنٹل سٹوروں پر ہمیں نہایت کم معاوضے پر ایسی خواتین کام کرتی دکھائی دیتی ہیں جن کے گھریلو حالات انہیں قدم باہر نکالنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ تاہم یہ امر بہرحال حوصلہ افزاء ہے کہ ہماری خواتین چادر ، دوپٹے سے بے نیاز نہیں ہیں ۔ برقعہ ، چادر ، عبایا ، گائون ، سکارف ، یہ سب ہماری روایات اور کلچر کے امین ہیں ۔
ہمارے ہاں حجاب کلچر زیادہ تر دیہی علاقوں میں ہے ۔ 90 سے 93 فیصددیہی خواتین سخت پردہ کرتی ہیں ، شہروں اور بالخصوص بڑے شہروں کی خواتین میں اس جانب رجحان تقریبا 60 سے 70فیصد کے درمیان پایا جاتا ہے ۔ مجموعی طور پر پاکستان کی 85 فیصد خواتین مذکورہ میں سے حجاب کی کسی نہ کسی صورت کو اختیار کرنے کی حامی ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں 55 فیصد خواتین نقاب ، 35فیصد عبایا ، چادر ، سکارف اور برقع پہنتی ہیں ۔5فیصد محض دوپٹہ اوڑھتی ہیں جبکہ باقی 5 فیصد ”کمرشل زدہ” خواتین کے نزدیک دوپٹہ بھی معیوب سمجھا جاتا ہے ، تاہم ایسی خواتین کو پاکستان کا چہرہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ بدقسمتی سے مغربی معاشرہ ہماری ایسی ہی خواتین کو ہمارے لئے رول ماڈل کے طور پر متعارف کروانے پر بضد ہے ۔ اس ایلیٹ کلاس کی مثال دیتے ہوئے ہماری تہذیب کا مغربی معاشرے کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے ، حالانکہ ہمارا اپنا ایک پورا نظام ہے جس میں تحفظ اور حقوق دونوں ہی عناصر پوشیدہ ہیں ۔
بہرحال یہ بات طے ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں نہیں بلکہ مادر پدر آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ اگر حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا تو ہمارے پاس سمیحہ راحیل قاضی ، شہناز لغاری ، رخسانہ ، عائشہ سید ، اینکر عاصمہ شیرازی ، مہر بخاری ، حفصہ جاوید ، سابق اداکارائوں سارہ چوہدری اور عروج ناصر جیسے اثاثے نہ ہوتے ۔ بلاشبہ ہمارا مضبوط خاندانی نظام اور معاشرتی استحکام ایسی ہی خواتین کی مرہون منت ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ملازمت کیلئے اپلائی کرنے والی باحجاب خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے اور انہیں ملازمت کے یکساں مواقع دئیے جائیں … نیز میڈیا بھی ایسی خواتین کو پروموٹ کرنے کے معاملے میں کسرِ نفسی سے کام مت لے اور وثوق رکھے کہ یہ خواتین دیگر خواتین کے برابر ہی صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔ صرف انہیں تسلیم کرنے ، مواقع اور پلیٹ فارم مہیا کرنے کی ضرورت ہے۔