جس موضوع پرراقم نے قلم اٹھانے کی جرأت کی ہے، اس کا عنوان ہے (محرم الحرام کا پیغام، ہم مسلمانوں کے نام)۔ اللہ تعالی نے جو بھی مخلوق پیدا کی ہے، ان میں سے بعض کو افضل اور بعض کو مفضول بنایا ہے ،اسی بنا پر جنت الفردوس کا مقام تمام جنتوںسے اعلی و ارفع ہے، جس طرح حضورۖ تمام نبیوں کے سردار و سرتاج ہیں،جس طرح امت محمدیہ تمام امتوں پر فوقیت رکھتی ہے،جس طرح دین اسلام تمام ادیان و ملل میں عظیم تر اور بڑھکر ہے ،جس طرح لیلة القدر تمام راتوں میں بابرکت و با عظمت ہے، جس طرح جمعہ کا دن سید الایام ہے، ٹھیک اسی طرح سال کے بارہ مہینوں میں چار مہینوںکو أشہرحرم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن میں ہے (اِنَّ عِدَّةَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللّٰہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْراً فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلق السَّمٰوٰتِ وَالأرْض مِنْھَا أرْبَعَة حُرُم) پھر ان چار مہینوں میں محرم کا مہینہ بہت سی خصوصیتوں اور فضیلتوں کی بنا پر اعلی مقام رکھتا ہے۔
چونکہ اس مہینہ کی عظمت ہر زمانے اور ہر دور میں رہی ہے اس بنا پر اس کو تین حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے، ١)ما قبل اسلام اس کی تعظیم: اس کی دو قسمیں ہیں : ١۔تشکرانہ تعظیم ٢۔جاہلا نہ تعظیم ٢)اسلام کی عادلانہ تعظیم ٣)مابعد ظہور اسلام بعض فرقوں کی غالیانہ تعظیم اب آئیے پہلے ما قبل اسلام پر ایک نظر ڈالتے ہیں ، اسلام سے قبل اس مہینہ کی تعظیم اہل کتاب بھی کرتے تھے اور کفار مکہ بھی، اہلِ کتاب چاہے وہ کسی بھی نبی کے ماننے والے ہوں اسکی تعظیم کرتے تھے ،جس کی وجہ خود احادیث میں موجود ہے کہ ہر نبی کو اس مہینہ میں کوئی نہ کوئی عظمت و فضیلت کی چیز حاصل ہوئی،مثلاً حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی، حضرت عیسیٰ اسی دن پیدا ہوئے اور اسی دن ان کو آسمان پر اٹھایا گیا، ،وغیرہ وغیرہ۔
آپ حیرت میں رہ جائیں گے کہ وہ کفار مکہ جن میں ہر قسم کی برائی عام تھی، جنہیں دوسری قوم کے لوگ غیر مہذب و غیر مثقف سمجھتے تھے، اس مہینہ میں جنگ سے بازرہتے،اسی بنا پر اگر جنگ ناگزیر ہوتی تو مہینہ کی تقدیم و تأخیر کرلیتے لیکن اس مہینہ کی حرمت کی پامالی گوارہ نہ کرتے، اور جو اس کی حرمت کو پامال کرتا اس کو نہایت ہی کمتر و ذلیل سمجھتے، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حضرت عائشہ کی حدیث کے مطابق جس کو امام بخاری نے روایت کیا ہے اس مہینہ کی دسویں تاریخ کو روزہ بھی رکھتے۔ یہ تو رہا اسلام سے ماقبل کا حال قرآن خاص طور پر حدیث میں اس کی بہت سی فضیلتیں وارد ہوئی ہیں ،ان کے ذکر سے پہلے چند ضروری چیزوں کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے۔
١)لفظ محرّم باب تفعیل کے مصدر تحریم سے اسم مفعول کا صیغہ ہے،تحریم کے ایک معنی تعظیم کے بھی ہیں ،چونکہ یہ مہینہ قابل عظمت ہے اس لئے اس کا نام محرم ہے۔ ٢)اس مہینہ میں ایک دن ہے جس کو یو مِ عاشوراء کہتے ہیں، یہ لفظ مشتق ہے عشر سے جو ایک معین عدد کا نام ہے، البتہ امام قرطبی نے اسکو عاشرہ سے معدول مانا ہے۔ ٣)عاشورہ کی وجہ تسمیہ علامہ بدرالدین عینی نے دو ذکر کی ہے: ١۔ یہ محرم کی دسویں تاریخ ہوتی ہے۔ ٢۔اس دن دس انبیاء کو دس خصوصیات سے نوازا گیا، اس لئے اس کو یوم عاشورہ کہتے ہیں۔
اسلام نے ”شرع ماقبلنا شرع لنا ما لم یخالف شرعنا ”کے اصول کے تحت نہ صرف اس کی عظمت کو باقی رکھا ،بلکہ اسکی عظمت میں اضافہ اوراس کو دوبالا کیا،لہٰذا وہ کام جو اس مہینہ میں مسنون قرار دئے گئے مندرجہ ذیل ہیں: ١)محرم کے پہلے عشرے کے روزے: ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کی طرح محرم کے پہلے عشرہ تک روزے رکھنا سنت مؤکدہ ہے۔ شیخ ابن حجر ہیتمی فرماتے ہیں :” فان صوم العشر الأول من المحرم سنة مؤکدة بل صوم الشھر کلہ سنة کما دلت علیہ الأحادیث” نبی کریمۖ نے فرمایا:”أفضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ الحرام ”رواہ مسلم۔دوسری ایک حدیث میں منقول ہے کہ ایک شخص نبی کریم ۖ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ مجھے ایسا مہینہ بتلا دیجئے کہ جسمیں میں رمضان کے بعد روزے رکھوں ،آپۖ نے فرمایا کہ محرم کے روزے رکھو اس لئے کہ یہ اللہ کا وہ مہینہ ہے جس میں ایک دن ایسا ہے کہ اس دن اللہ تعالی نے ایک قوم کی دعا قبول فرمائی اور دوسرے لوگوں کی بھی دعا قبول فرمائے گا، ابن حجر ہیتمی نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”أن السلف کانوا یعظمون ثلاث عشرات، عشر رمضان الأخیر، و عشر ذی الحجہ، و عشر محرم الأول۔
Ashura
٢)یوم عاشورہ کے کام:بعض لوگوں نے اس دن بارہ کاموں کو اجرو ثواب کا باعث بتایا ہے۔لیکن ان میں صرف تین کام مسنون ہیں . ١۔عاشورہ کا روزہ: جمہور کے نزدیک یہ روزہ سنت ہے،حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ (حضورۖ عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اس کو رکھنے کا حکم دیتے)نیز حضرت ابو قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ سے عاشورہ کے روزہ کے ثواب کے بارے میں پوچھا گیا تو آپۖ نے فرمایا (یکفر السنة الماضیة) حضور ۖ نے اپنی زندگی میں صرف دس تاریخ کا ہی روزہ رکھا تھا البتہ آخری عمر میں آپۖ نے یہودیوں کی مخالفت کے لئے فرمایا (لئن بقیت الی قابل لأصومن التاسع) رواہ مسلم ٢۔دوسرا کام عاشورہ کے دن صدقہ کرنا ہے.یوں تو نفل صدقہ ہر وقت سنت ہے ،لیکن اچھی جگہوں اور اچھے موقعوں پر صدقہ سے استحباب میں اضافہ ہوتا ہے،اور علماء نے اس کی صراحت بھی کی ہے۔
٣۔اہل و عیال پر وسعت کے ساتھ خرچ کرنا:حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے حضورۖ نے فرمایا (من وسع علی عیالہ یوم عاشوراء لم یزل فی سعتہ سائر سنتہ)اس حدیث کو بہت سے علماء اور اساطین امت نے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی احادیث میں اس کی اہمیت و فضیلت وارد ہوئی ہے جن میں سے ہر ایک کا احصاء دشوار ہے۔ ٣)رہا مسئلہ ظہور اسلام کے بعد تعظیم کا : تو اس مہینہ میں بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جن کی بنا پر جمہور اہل سنت والجماعت نے بھی اس کو باعث تعظیم مانا ہے.مثلاًحضرت عمر کا اس مہینہ سے اسلامی تقویم کا آغاز کرنا، حضرت عمر کی شہادت کا حادثہ، اسی طرح حضرت حسین کی شہادت کا وہ المناک و کربناک حادثہ کہ جس کو دیکھ کر شیطان بھی اس دن شرماگیا ہوگا.یہ تمام چیزیں یقیناً اس دن کی اہمیت وعظمت میں اضافہ کرتی ہیں ،اور ہمیں بہت سے نصیحت آمیز درس دیتی ہیں، لیکن صرف حضرت حسین کی شہادت کی بنا پر اس کی عظمت کو ماننا اور دوسروں کی قربانیوں کو نظر انداز کرنا، اسی طرح بدعات و خرافات اور واہیات کے ایک عظیم سمندر کو رواج دینا، یہ کہاں کی عقلمندی اور انصاف کی بات ہے،؟؟؟ حد تو یہ کہ ان لوگوں نے اس کو رواج دینے کیلئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے،غلط روایات گڑھ کر لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کردیا،یہاں تک کہ امت کا ایک بڑا طبقہ ان کے بہکاوے میں آکر راہ حق سے ہٹ گیا۔
چونکہ بدعات و خرافات کا ایک سیلاب ہے ، اس بناء پر بعض علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ واعظوں کو چاہئے کہ وہ اپنے وعظ میں صرف امام حسین کی شہادت کو موضوع سخن نہ بنائیں تاکہ روافض کی مشابہت نہ ہو بلکہ پہلے دوسرے واقعات کو بیان کیا جائے۔ ماہ محرم کا پیغام ہم مسلمانوں کے نام اسلامی جنتری کا نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے ، سالِ نو کے آغاز پر ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی ہے، اور عام طور سے ذھن میں ایک دھندلا سا یہ خیال آتا ہے کہ اب سے چودہ سو سال قبل ہجرت نبوی کا واقعہ پیش آیا تھا،اور اس پر اتنے سال گذر گئے ہیں اور بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔
حالانکہ ہجرت نبوی اسلامی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہے،جس میں امت مسلمہ کیلئے ایثارو قربانی ،جانفشانی و جانفروشی،ایمان و یقین ،معرفت و محبت کے ہزارہا پیغام ہیں اور جس میں اللہ تعالی کی ہزاروں حکمتیں اور رحمتیں پنہاں تھیں اور ہیں۔ بقول حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ”یہ تاریخ عالم صرف نقل مکانی کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ نقل زمانی،بلکہ نقل انسانیت کی پیدائش نو کی حیثیت رکھتی ہے،اور اس کے ذریعہ سے نہ صرف ذات نبوی اور آپ کے دست گرفتہ اور دامن گیر وفاداروں کی ایک جماعت دشمنوں کے غیظ و غضب اور مکرو کید سے محفوظ ہوئی،بلکہ پوری نوع انسانی اور عالم انسانیت کیلئے نصرت و رحمت،حفاظت و قوت اور نجات ( بلکہ انسانیت کے اندر پیدائش نو کا ) ایک دروازہ کھل گیا۔
Allah
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا تفصیلات کے نتائج میں جو چیزیں قابل توجہ ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: ١۔جتنے فضائل و سنن اس سلسلہ میں مذکور ہیں ان کو عمل میں لانے کی کوشش کریں. ٢۔بدعات و خرافات کو ختم کرنے کی کوشش کریں. ٣۔ہجرت کا جو پیغام ہے اس سے ہم عبرت و نصیحت اختیار کریں. اللہ سے دعا ہے کہ ہم کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ،آمین۔ وما توفیقی الا باللہ، علیہ توکلت والیہ أنیب
تحریر: محمد حماد کریمی ندوی 9889943219 hammadkarimi93@gmail.com