تم ذات خداسے نہ جدا ہو نہ خدا ہو اللہ ہی کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
تحریر : حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل رجب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس کی ٢٧شب کو آقائے دوجہاں سرور کائنات فخر موجودات ۖ کو معراج ہوئی اسی وجہ سے یہ رات شب معراج کے نام سے مشہور ہوگ ئی یہ مہینہ بڑی فضیلت والاہے اس مقدس مہینہ کے بارے میں حدیث مبارکہ میں آیاہے۔ رَجَبُ شَھْرُاللّٰہ ِوَشَعْبَانُ شَھْرِیْ وَرَمَضَانُ شَھْرُاُمَّتِیْرجب اللہ کامہینہ ہے اورشعبان میرامہینہ ہے اوررمضان میری امت کامہینہ ہے۔شب معراج انتہائی افضل اورمبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت رسول اللہ ۖ کے معراج سے ہے شب معراج سے مرادیہ ہے کہ رات کے کچھ حصے میں حضور ۖمسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجداقصیٰ تک تشریف لے گئے۔
راستے میں مختلف عجائبات الٰہیہ کامشاہدہ کیا، وہاںانبیائے کرام علہیم السّلام کے اجتماع کو نماز پڑھائی۔پھروہاںسے آسمانوںکی سیرکرتے ہوئے سدرة المنتہیٰ تک گئے وہاںسے ذات باری تک تشریف لے گئے وہاںپراللہ تعالیٰ کادیدارہوااور لاتعداد عنایتوںسے سرفرازہوکرواپس تشریف لائے۔اس واقعہ کاثبوت ہمیں قرآن پاک سے ملتاہے ۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ سُبْحٰنَ الََّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَاحَوْلَہ’ لِنُرِیَہ’ مِنْ اٰیٰتِنٰا طپاکی ہے اسے جواپنے بندے(محمد ۖ) کوراتوں رات لے گیامسجدحرام سے مسجداقصٰی تک جسکے اردگردہم نے (دینی ودنیوی)برکت دے رکھی ہے کہ اسے ہم (ملکوت سماوات وارض کی)اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں۔(بنی اسرائیل پارہ ١٥آیت نمبر١) اللہ رب العزت نے سفرمعراج کولفظ سُبْحٰنکیساتھ بیان کیاکہ پاک ہے وہ ذات جواپنے محبوب ۖاورمقرب بندے کوسفرِمعراج پرلے گئی عربی زبان اور محاورہ عرب میں جب کوئی بات سُبْحٰن سے شروع کی جائے تواس سے مرادایک طرح کی قسم لیتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے بھی حضور ۖکے معجزہ معراج کاذکراپنی بزرگی،برتری اورشان صمدیت کی قسم کھاکرکیا۔سوال پیداہوتاہے کہ اللہ کوسُبْحٰن الذیسے سفرمعراج کوبیان کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟اللہ پاک کے کلام میں کسی مسلمان کوشک وشبہ ہونہیں سکتااورکفارومنکرین پراللہ کی قسم کھانے یانہ کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی پہلی حکمت ووجہ یہ تھی کہ واقعہ معراج ایک عظیم اورنادرالوجودمعجزہ ہے اللہ پاک نے اس واقعہ کواپنی بزرگی کے اظہارکے ساتھ شروع کرکے معترضین کے اس اعتراض کوردکیاکہ واقعہ معراج حالت ِ خواب میں رونماہوانہ کہ حالتِ بیداری میں اگرمعراج حالت خواب میں ہوتاتورب کریم کبھی اس کاذکرقسم کھاکرنہ کرتاقسم کھاکرواقعہ معراج کوبیان کرنے کاواحدمقصدیہ ہے کہ معراج نبی کریم ۖکوحالتِ خواب میں نہیں بلکہ عالم بیداری میں ہوئی تھی اگراس واقعہ کاتعلق خواب سے ہوتاتوعالم بالاعرش الٰہی ،جنت ودوزخ،فرشتوں ،جبرائیل اورآسمان کی زیارتیں انبیاء کرام اوراولیاء کرام کواکثرعالم خواب میں ہوتی رہتی ہیں اس صورت میں معراج اتناعجیب اورعظیم واقعہ نہ ہوتاکہ جس کوقسم کھاکربیان کرنے کی ضرورت ہوپس سُبْحٰن الَّذِیْسے اس سفرمعراج کے بیان کاشروع ہونااس بات پردلالت کرتاہے کہ معراج عالم خواب کاواقعہ نہیں بلکہ عالم بیداری کاواقعہ ہے اس کی دوسری حکمت لفظ سُبْحٰنسے شروع کرنے کی یہ ہے کہ جب آقا ۖنے اپنے سفرمعراج کوبیان کیاتوکفارنے اس کوتسلیم کرنے سے انکارکردیااورکہنے لگے یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص راتوں رات مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک اورپھروہاں سے آسمان اورفوق السموٰت جاسکے یہ ساراایک رات میں ممکن نہیں اللہ پاک نے فرمایااے اعتراض کرنے والو!میرے نبی نے تویہ کہاہی نہیں کہ میں گیابلکہ یہ تومیں کہہ رہاہوں سُبْحٰن الَّذِیْ اَسْرٰیمیں لے گیاآقا ۖنے تودعویٰ کیاہی نہیں دعویٰ تواللہ پاک کررہاہے کہ میں لے گیاپس معراج کاعالم بیداری میں ہونے کاانکارکرنے والے اصل میں دعوٰی مصطفی ۖکونہیں بلکہ دعوٰی خداکوجھٹلارہے ہیں پس جومصطفی ۖکی بیداری میں معراج کاانکارکررہاہے وہ انکارمصطفی ۖنہیں بلکہ انکار خدا کر رہا ہے۔
یہ اللہ پاک کی اپنے نبی کریم ۖسے محبت ہے کہ اس نے نبی کریم ۖکودشمنوں کے طعنے سے بچانے کے لیے ایک طرف کردیااورخوداپنی ذات کوآگے کردیاکہ میں لے گیااگرکسی نے اعتراض کرناہے تومیری طاقت اورقدرت کاانکارکرے پس عالم بیداری میں معراج کاانکارکرناعظمت مصطفی ۖکاانکارنہیں بلکہ قدرت الٰہیہ کاانکارہے اس لئے اللہ نے اسے لفظ سُبْحٰنسے شروع کیا ۔معراج کاسفرتین مرحلوں میں ہے مسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک عالم ناسوت کاسفراس کو”وہ” کہہ کربیان کیاآسمانوں اورسدرة المنتہیٰ تک عالم لاہوت اورجبروت کے سفرکو”ہم”کہہ کربیان کیااورسدرة المنتہیٰ کے بعدکاسفرجب براق بھی رہ گیارفرف آیاوہ بھی رہ گیااورپھربقعہ نورآیابالآخروہ بھی رہ گیااورپھروہ مقام آیاکہ جب کچھ بھی نہ تھاصرف وہ اللہ پاک تھااوریہ محمد ۖتھاصرف خداتھااور مصطفی ۖتھااور کچھ نہ تھاوہاں تجریدوتفریق کی طرف آگئے وہاں کوئی اورسننے والانہ تھاوہ بولتاتھایہ سنتاتھاوہاں کوئی اوردیکھنے والابھی نہ تھاوہ دیکھتاتھاتویہ دکھائی دیتاتھااوریہ دیکھتاتھاتووہ دکھائی دیتاتھاجلوہ خداتھااورنگاہ مصطفی ۖتھی اوراسی طرح جلوہ مصطفی ۖتھااورنگاہ خداتھی اس سفرکو”انہ ھوالسمیع البصیر”کے ذریعے بیان کیا کہ اورصرف وہی سننے والااوردیکھنے والاہے ایک اشارہ اپنی طرف کردیااورایک اشارہ اپنے محبوب ۖکی طرف کردیا۔ارشادباری تعالیٰ ہے۔ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی۔ فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہ مَآاَوْحٰی۔مَاکَذَبَ الْفُوئَ ادُمَارَاٰی۔اَفَتُمٰرُوْنَہ’ عَلٰی مَایَرٰی وَلَقَدْرَاٰہُ نَزْلَةَََََََََاُخْرٰیپھروہ جلوہ حق (اپنے حبیب) کے قریب ہواپھرخوب اترآیا(زیادہ قریب ہوا)تواس جلوے اوراس محبوب میں دوہاتھ بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیااب اللہ نے اپنے بندے کوبلاواسطہ وحی فرمائی جوبھی وحی فرمائی دل نے نہ جھٹلایاجو(آنکھ نے) دیکھاتو(اے مشرکو)کیاتم ان سے ان کے دیکھے ہوئے پرجھگڑتے ہواورانہوں نے تووہ جلوہ حق دوباردیکھا۔(پارہ٢٧ سورة النجم8,13 )مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَاطَغٰی لَقَدْرَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہ الْکُبْرٰی۔(جلوہ حق سے) آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حدسے بڑھی بے شک آپ نے اپنے رب کی بہت بڑی نشانیاں دیکھیں۔(پارہ٢٧ سورة النجم17,20 )۔حضرت انس بن مالک،حضرت مالک بن صعصہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور ۖ نے صحابہ کرام سے اس رات کی کیفیت بیان فرمائی جس میں آپ ۖ کو معراج ہوئی آقا ۖ نے ارشادفرمایاکہ میں حطیم کعبہ میںلیٹاہوا تھاکہ یکایک میرے پاس ایک آنے والا آیااور اس نے میرا (سینہ) یہاںسے لیکریہاں تک چاک کرڈالا(راوی کہتاہے یعنی حلقوم سے لیکرزیرناف تک)پھراس نے میرادل نکالابعدازاںمیرے پاس ایک سونے کاطشت لایاگیاجوایمان سے بھرا ہواتھااور میرادل دھویاگیا۔پھروہ ایمان وحکمت سے لبریزہوگیااس قلب کوسینہ اقدس میںاسی جگہ پررکھ دیاگیا اسکے بعدمیرے پاس ایک جانورسوار ہونے کے لئے لایا گیاجوخچرسے چھوٹااورگدھے سے بڑاتھاسفیدرنگ کاتھاراوی کہتاہے کہ براق تھا اوروہ اپناقدم منتہائے نظرتک رکھتاتھامیںاس پرسوار ہواپھر جبرائیل ۖ لے چلے یہاںتک آسمان دنیا پرپہنچے ۔اورانہوںنے اسکادروازہ کھٹکھٹایا۔پوچھاگیاکون ہے؟انہوںنے کہاجبرائیل پوچھاگیاتمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوںنے کہا محمد ۖپوچھاگیاوہ بلائے گئے ہیں ؟کہاہاں جواب ملا،انہیں خوش آمدیدہو ان کاآنابہت اچھاہے۔پھروہ دروازہ کھول دیاگیا جب میں وہاںپہنچاتوحضرت آدم ملے۔ اورجبرائیل نے بتایاکہ یہ آپ کے باپ حضرت آدم ہیں آپ انہیں سلام کیجیے میںنے سلام کیاتوانہوںنے سلام کاجواب دیااور کہاخوش آمدیدہوصالح فرزند اورصالح نبی کوپھرجبرائیل میرے ہمراہ اوپرچڑھے یہاں تک کہ دوسرے آسمان پرپہنچے اورانہوںنے اسکادروازہ کھٹکھٹایا پوچھا گیاکون ہے؟انہوںنے کہاجبرائیل پوچھاگیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوںنے کہا محمد ۖ؟ پوچھاگیاکیاوہ بلائے گئے ہیں؟انہوںنے کہاہاں۔ اس (دوسرے آسمان)کے دربان نے کہاخوش آمدیدہو انکاآنابہت اچھااورمبارک ہے اوردروازہ کھول دیاجب میںوہاںپہنچاتوحضرت یحییٰ اورحضرت عیسیٰ ملے اور وہ دونوں خالہ زادبھائی تھے جبرائیل نے کہایہ حضرت یحییٰ اورعیسی علیہم السلا م ہیں انکو سلام کیجیے۔
میں نے انہیں سلام کیاان دونوںنے سلام کاجواب دیااورکہاخوش آمدید ہو صالح بھائی اور صالح نبی کوپھر جبرائیل مجھے تیسرے آسمان پرلے گئے اوراسکادروازہ کھلوایاتوپوچھاگیاکون؟ انہوںنے کہاجبرائیل !دریافت کیاگیاتمہارے ساتھ کون ہے؟انہوںنے بتایاکہ محمد ۖ! پھردریافت کیاگیاوہ بلائے گئے ہیں جبرائیل نے کہاہاں!اسکے جواب میں کہاگیاانہیں خوش آمدیدہوان کاآنابہت ہی اچھااورنہایت مبارک ہے اوردروازہ کھول دیاگیا۔ پھرجب میں وہاں پہنچاتوحضرت یوسف ملے جبرائیل نے کہایہ حضرت یوسف ہیں انہیںسلام کیجیے میںنے انہیں سلام کیا انہوںنے سلام کاجواب دیاپھرانہوںنے کہاخوش آمدیدہوصالح بھائی اورصالح نبی کواسکے بعدجبرائیل چوتھے آسمان پرمجھے لے گئے اوراسکا دروازہ کھلوایاپوچھاگیاکون انہوںنے کہاجبرائیل !پوچھاگیاکون ہے تمہارے ہمراہ کون ہے؟ انہوںنے کہامحمد ۖ!پوچھاگیاکیاوہ بلائے گئے ہیں؟ جبرائیل نے کہاہاں؟اس کے جواب میں کہاگیاانہیں خوش آمدیدہوانکاآنابہت ہی اچھااورمبارک ہے! اوردروازہ کھول دیاجب میں وہاں پہنچاتو حضرت ادریس ملے جبرائیل نے کہایہ حضرت ادریس ہیں انکوسلام کیجیے میں نے انکوسلام کیاتوانہوںنے سلام کاجواب دے کرکہاخوش آمدیدہو صالح بھائی اورصالح نبی کو!پھرجبرائیل مجھے پانچویںآسمان پرلے چڑھے اوردروازہ کھٹکھٹایاپوچھاگیاکون ہے؟انہوں نے کہاجبرائیل پوچھاگیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوںنے کہامحمد ۖ۔پوچھاگیاوہ بلائے گئے ہیں انہوںنے کہاہاں!اس نے کہاخوش آمدیدہوانکاآنابہت ہی اچھااور مبارک ہے (پس دروازہ کھلنے پر)جب میں وہاںپہنچاتوحضرت ہارون ملے جبرائیل نے کہایہ حضرت ہارون ہیں انہیںسلام کیجیے میں نے انکوسلام کیاتو انہوںنے سلام کاجواب دے کرکہا خو ش آمدیدہو صالح بھائی اورصالح نبی کوپھرجبرائیل مجھے چھٹے آسمان تک لے پہنچے اوراسکادروازہ کھلوایا!تو پوچھاگیاکون ہے؟انہوںنے کہاجبرائیل پوچھاگیا تمہارے ہمراہ کون ہے؟انہوںنے کہامحمد ۖپوچھاگیاکیاوہ بلائے گئے ہیں؟انہوںنے کہا ہاںاس فرشتے نے کہاخوش آمدیدانکاآنانہایت ہی اچھااورمبارک ہے جب میں وہاں پہنچاتوحضرت موسیٰ ملے جبرائیل نے کہایہ حضرت موسیٰ ہیںان کوسلام کیجیے میں نے انکوسلام کیااورانہوںنے بھی سلام کاجواب دیااورکہاخوش آمدیدصالح بھائی اورصالح نبی کوجب میں آگے بڑھاتووہ رونے لگے پوچھاگیاآپ کوکیاچیزرلارہی ہے؟انہوںنے کہامیں اس لئے روتاہوں کہ میرے بعدایک فرزندنبی بنائے گئے جسکی امت کے لوگ میری امت سے زیادہ جنت میں داخل ہونگے۔پھرجبرائیل مجھے ساتویںآسمان پرلے گئے اوراسکادروازہ کھٹکھٹایا توپوچھا گیا کون ہے انہوںنے کہاجبرائیل پوچھاگیاتمہارے ہمراہ کون ہے انہوںنے کہامحمد ۖ۔وہ بلائے گئے ہیں انہوںنے کہاہاںاس فرشتے نے کہاخوش آمدیدانکا آنابہت ہی اچھااورمبارک ہے پھرمیں جب وہاں پہنچاتوحضرت ابراہیم ملے جبرائیل نے کہایہ آپ کے والدحضرت ابراہیم ہیں انکوسلام کیجیے پس میں نے انکوسلام کیاانہوں نے سلام کاجواب دیااورکہاخوش آمدیدصالح فرزنداورصالح نبی پھرمیں سدرة المنتہیٰ تک اٹھایاگیاتواس( درخت) سدرة کے پھل مقام ہجر کے مٹکوں کیطرح تھے اور اسکے پتے ہاتھی کے کانوں جیسے تھے جبرائیل نے کہایہ سدرة المنتہیٰ ہے اوروہاں چارنہریں تھیںدوپوشیدہ دوظاہر میں نے پوچھااے جبرائیل یہ نہرکیسی ہیں۔
انہوں نے کہاان میں جوپوشیدہ ہیں وہ توجنت کی نہریں ہیں اورجوظاہرہیں وہ نیل وفرات ہیںپھربیت المعمور میرے سامنے ظاہرکیا گیااسکے بعدمجھے ایک برتن شراب کا ایک دودھ کااورایک برتن شہدکادیاگیامیں نے دودھ کوقبول کیاجبرائیل نے کہایہ فطرت (دینِ اسلام ) ہے جس پر آپ ۖاور آپکی امت اس پرقائم رہیںگے اسکے بعد مجھ پرہرروزپچاس نمازیں فرض کی گئیںجب میں واپس ہواتو حضرت موسیٰ پرگزرہواآپ نے کہاآپکی امت پچاس نمازیںروزانہ نہ پڑھ سکے گی۔خداکی قسم!میں آپ سے پہلے لوگوںکاتجربہ کرچکاہوںاور بنی اسرائیل کے ساتھ میں نے سخت برتائوکیاہے لہذاآپ اپنے رب کے پاس لوٹ جائیے اوراپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجیے چنانچہ میںپھر اپنے رب کے پاس لوٹااوراللہ تعالیٰ نے مجھے دس نمازیں معاف فرمادیں پھرمیںحضرت موسیٰ کے پاس آیاانہوں نے پھراسی طرح کہامیں پھر اپنے رب کے پاس واپس گیااوراللہ تعالی نے مجھے پھردس نمازیں معا ف کردیں۔ پھرحضرت موسیٰ کے پاس آیاانہوں نے پھراسی طرح کہامیں پھرخداکے پاس واپس گیاتومجھے ہرروزپانچ نمازوں کاحکم دیاگیاپھرمیں حضرت موسیٰ کے پاس لوٹ کے آیاتوانہوں نے پوچھاکہ آپکوکیاحکم ملامیں نے کہاروزانہ پانچ نمازوں کاحکم ملاہے۔انہوں نے کہاآپکی امت پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھ سکے گی میں نے آپ سے پہلے لوگوں کاتجربہ کیاہے ا وربنی اسرائیل سے سخت برتائو کر چکا ہوں لہذاپھرآپ اپنے رب کی بارگاہ ٔمیں جائیے اوراپنی امت کے لئے تخفیف کی درخواست کیجیے۔حضور ۖ نے فرمایاکہ میں نے اپنے رب تعالیٰ سے اتنے سوال کرلئے کہ اب شرم کرتاہوں لہذااب میں راضی ہوںاوراپنے رب کے حکم کوتسلیم کرتاہوںحضور ۖ نے فرمایامیں آگے بڑھا توایک پکارنے والے نے آوازدی کہ میں نے اپناحکم جاری کردیااوراپنے بندوں سے تخفیف فرمادی۔ (بخاری،مسلم شریف) آج لوگ مقام مصطفی ۖکے بارے میں جھگڑاکرتے ہیں کوئی انہیں مقام بشریت تک محدودرکھتاہے کوئی انہیں صرف نورکہتاہے۔ مصطفی ۖکے مقام کوفقط بشریت تک محدودکرنے والوسنو!کہ بشریت تومسجداقصیٰ تک رہ گئی ۔آقا ۖآگے چلے گئے اس سے معلوم ہواکہ بشریت،مصطفی ۖکی شانوں میں سے ایک شان ہے مقام نہیں ہے اگرآقا ۖکامقام صرف بشریت ہوتاتومسجداقصیٰ سے آگے نہ جاسکتے بشریت مصطفی ۖکامقام نہیں بلکہ بشریت کامقام آقا ۖکے قدموں میں ہے ۔مقام مصطفی ۖکوفقط نورانیت میں بندرکھنے والو!دیکھوجبرائیل اوربراق جونورہیں وہ سدرة المنتہیٰ پررہ گئے اورآقا ۖآگے چلے گئے اگرآقا ۖکامقام فقط نورانیت ہوتاتوسدرة المنتہیٰ سے آگے نہ جاسکتے ۔پس بشریت بھی مصطفی ۖکی ایک شان اورنورانیت بھی مصطفی ۖکی ایک شان ہے ۔بشریت مسجداقصیٰ میں رہ گئی اورنورانیت سدرة المنتہیٰ پررہ گئی مصطفی ۖآگے چلے گئے معلوم ہوا یہ شانیں تھیں مقام اس سے اوپر ہے۔
بشریت بھی حق ہے اس کاانکارکرناکفرہے اورحق اتنی ہے کہ مسجد اقصیٰ میں رہ گئی نورانیت بھی حق ہے اوربشریت سے بہت آگے ہے اس کاانکارکرناگمراہی اور بدبختی ہے اورحق اتنی ہے کہ سدرة المنتہیٰ پرکھڑی ہے مقام مصطفی ۖبشریت سے بھی بلندہے اور نورانیت سے بھی بلندہے بشربھی آقا ۖسے فیض لیتاہے نوربھی مصطفی ۖسے فیض لیتاہے آگے رفرف آیامگرایک مقام پرجب اللہ تعالیٰ کی تجلیات بے حد ہوگئیں تورفرف بھی رہ گیاپھربقعہ نورآیاایک مقام پربقعہ نوربھی رہ گیااورپھرایک مقام ایساآیاکہ اورکوئی وہاں نہ جاسکابس ادھر خدا تھاادھر مصطفی ۖ تھے اللہ نے فرمایاثُمَّ دَنَافَتَدَلّٰیمرادجبرائیل کاقریب ہونانہیں بلکہ صحیح بخاری میں ہے ۔حضرت انس سے روایت ہے کہ دنی الجباررب العزت فتدلیٰ “اللہ پاک قریب ہوا”جن لوگوں کے ذہنوں میں یہ غلط خیال ہے نکال دوکہ جبرائیل قریب ہوئے جبرائیل تووہ ہیں جوآقا ۖکے نواسوں کے جھولے جھولاتے ہیںاسکی ایک اورتفسیرامام جعفرصادق نے کی فرمایاثم دنی ای دنی محمدفتدلیٰ “کہ محمد ۖاللہ کے قریب ہوئے دونوں تفاسیرحق ہیں وہ محمد ۖ کے قریب ہوااوریہ خداکے قریب ہوئے ۔پھرایک مقام آیاکہ آوازآئی اے حبیب آپ رک جائیں حرم کعبہ سے یہاں تک آپ آئے ہیں اب آپ رک جائیں اب آگے بڑھ کرمیں آتاہوں ۔امام عبدالوہاب شعرانی نے الیواقیت الجواہرمیں اوردیگرعرفاء واولیاء نے بیان کیاہے کہ اللہ پاک نے آوازدی قف یامحمدان ربک یصلی اے محمد ۖرک جائیں آپ کارب آپ پرصلوٰة پڑھ رہاہے۔معراج کی رات اللہ رب العزت نے اپنے حبیب ۖکااستقبال درودسلام سے کیاصلیٰ کاایک معنی قریب ہوتاہے معنی ہوگااے حبیب رک جائیے اب آپ کارب خودآپ کے قریب آتاہے اس استقبال کے بعدقربتیں شروع ہوگئیں ۔پس اللہ پاک کے اخلاق کے رنگ مصطفی ۖکے خلق پرچڑھ گئے اس مقام پراسماء مصطفی ۖافعال مصطفی ۖاورصفات مصطفی ۖپراللہ کے اسماء ،افعال اورصفات کارنگ چڑھ چکاتھاجب سارے رنگ چڑھ گئے توفرمایااب حبیب صرف تیری ذات رہ گئی ۔ ارشادفرمایااوادنیٰ خدانے اس مقام پراپنی ذات کارنگ بھی مصطفی ۖکی ذات پرچڑھا دیااللہ کے اسماء کے رنگ ،اسماء مصطفی ۖپر چڑھنا یہ اسماء مصطفی ۖکی معراج تھی اللہ کے افعال کارنگ افعال مصطفی ۖپرچڑھنایہ افعال مصطفی ۖکی معراج تھی ۔اللہ پاک کی صفات کارنگ ،صفات مصطفی ۖپرچڑھنایہ صفات مصطفی ۖکی معراج تھی اوربالآخرذات خداکارنگ ذات مصطفی ۖپرچڑھناذات مصطفی ۖکا معراج تھا۔دل بھی دیکھتارہا آنکھیں بھی دیکھتی رہیں اورآنکھوں نے ایسادیکھاکہ نہ حدسے گزریں اورنہ جھپکیں اسی اثناء میں کتنارنگ چڑھ گیاہوگااس بارے میں صرف اتناہی کہا جا سکتا ہے۔
تم ذات خدا سے نہ جدا ہو نہ خدا ہو اللہ ہی کو معلوم ہے کیا جانیے کیا ہو
بعض کتب تفاسیرمیں روایات کے ذریعے اس امرکی تصریح کی گئی ہے کہ واپسی پربھی حضور ۖکی خدمت اقدس میں براق پیش کیاگیااسکے ذریعے آپ ۖواپس مکہ تشریف لائے جیسے جاتے ہوئے ہرآسمان پرایک برگزیدہ نبی اورملائکہ کے ساتھ ملاقات کامفصل ذکرآتاہے ایسے ہی واپسی پرتفصیلی ملاقاتوں کاذکرموجودنہیں لہذاواپسی کی تفصیلات اورجزئیات اللہ اوراس کے رسول ۖکوہی معلوم ہیں ۔غرضیکہ آقائے نامدار ۖبراق پرمکہ معظمہ واپس تشریف لے آئے اورصحن حرم میں لیٹ گئے پھرتہجدکے وقت اٹھے حدیث پاک میں آتاہے ۔(ملاء اعلیٰ اورملکوتی مشاہدہ سے واردشدہ استغراق کی کیفیت سے )واپس پلٹاتومسجدحرام میں تھا۔ اللہ پاک ہم سب کو آقا ۖکی سچی محبت اورپکی غلامی نصیب فرمائے تاکہ بروزقیامت ہم محبوب ۖکی شفاعت اوراللہ پاک کی جنت کے حقداربن جائیں۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیک یا محمد