خلفائے راشدین میں سے دوسرے خلیفہ راشد سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دین اسلام کی وہ طاقت ور شخصیت ہیں کہ جن کا نام سن کر رعب اور دبدبے سے کافر وں پر سکتہ طاری ہو جاتا۔آپ کا نام عمر، کنیت ابوحفص اور لقب فاروق اعظم ہے۔ آپ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ زہد و تقویٰ کے پیکر، بہادری، دلیری اور عدل و انصاف کے خوگر تھے۔ آپ کے عدل و انصاف کا اعتراف نہ صرف اپنے ہی بلکہ غیر بھی کرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ بعض کا کہنا ہے کہ اگرکوئی کامیاب حکمرانی کرنا چایتا ہو تو وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا مطالعہ کرکے اور اسے اپنا کر کامیاب ہو سکتا ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت سے دعا کی تھی : اے اللہ! عمر بن خطاب اور عمرو بن ہشام (ابوجہل) میں سے اپنے پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا اور سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو صراط مستقیم پہ چلا دیا، دین اسلام کو اس وقت عزت ملی اوراسلام دشمن کفار پر ہمیشہ کے لیے رعب طاری ہو گیا۔سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا نام سن کراسلام کی مخالفت کرنے والے اپنی بلوں میں گھسے رہتے۔ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے صحیح بخاری اور مسلم شریف میں کہ” عمر جس راستے سے گزرتے ہیں، شیطان اپنا راستہ بدل لیتا ہے”۔ جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبولِ اس سے قبل مسلمان مشرکین قریش سے چھپ کر عبادات کیا کرتے تھے، لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا، تو آپ رضی اللہ عنہ نے برملا اعلان کیا کہ آج سے مسلمان عبادات چھپ کر نہیں بلکہ سرعام کیا کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ:”بے شک سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام ہمارے لیے فتح تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہم نے مشرکین کا مقابلہ کیا اور خانہ کعبہ میں نمازیں پڑھنا شروع کر دیں۔”(طبرانی: 8820)سیدنا فاروق اعظم کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل تھا بلکہ اکثر معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشاورت کرتے اور اسے اہمیت دیتے۔اکثر غزوات اور حکومتی معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق کے بعد آپ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپ کے بارے میں رسول اکرم ۖ نے فرمایا:”میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا ”(ترمذی شریف)۔مزیدآپ رضی اللہ عنہ کے بارے فرمایا کہ” عمر کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے حق جاری کر دیا ہے” (بیہقی)۔
سیدنا فاروق اعظم حکومتی معاملات میں بڑے حساس اور اپنی رعایا کو فائدہ پہنچانے کے لیے غورو فکر کرتے رہتے۔ آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیل چکی تھی۔ آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا۔حضرت عمررضی اللہ عنہ کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیاگیا۔آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں بہت سے نئے انتظامی شعبہ جات کا قیام عمل میں لایا ۔ان میں سے چند ایک مشہور ذکر کیے جاتے ہیں: پولیس کا محکمہ، جیل خانہ جات،بیت المال کا قیام، نہری نظام کا قیام اور نظامِ تعلیم کا قیام وغیرہ سرفہرست ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی پیشین گوئی پہلے ہی نبی کریمۖ کی زبان پرکردی گئی تھی،ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم احد پہاڑ پر تشریف فرماتھے کہ اچانک احد پہاڑنے ہلنا شروع کر دیا، تونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ پر قدم مبارک مارا اور اسے مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے احد! رک جا، تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدکھڑے ہیں یعنی سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں شامل تھے)”۔اسی پیش گوئی کے مطابق 26 ذوالحجہ 23ھجری کو ابولولو مجوسی کے قاتلانہ حملہ میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہفتہ کے دن یکم محرم الحرام کو خالق حقیقی سے جا ملے اور شہادت کے عظیم رتبہ پر فائز ہو گئے۔