لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں ایک تبلیغی اجتماع سے لوٹنے والے کم از کم پانچ افراد میں نئے کورونا وائرس کی تشخیص سے ملک کے کئی حلقوں میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ناقدین اب تبلیغی اجتماعات کے حوالے سے سوالات اٹھا رہے ہیں۔
تبلیغی جماعت نے دس سے بارہ مارچ تک لاہور میں ایک بین الاقوامی تبلیغی اجتماع منعقد کرایا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکیوں نے بھی شرکت کی۔ یہ اجتماع پندرہ مارچ تک جاری رہنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے اسے جلد ختم کر دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اجتماع میں شرکت کرنے والے ایک صومالی باشندے نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد تقریبا پندرہ ہزار تھی۔
طبی ماہرین کا خیال ہے کہ مذہبی اجتماعات نئے کورونا وائرس کے وسیع پیمانے پر پھیلاو کا باعث بن سکتے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد کے ایک علاقے بہارہ کہو کے محلے کوٹ ہتھیال میں ایک غیر ملکی اور چار پاکستانی شہریوں میں کووڈ انیس کی تشخیص ہوئی ہے۔ مقامی پولیس کے مطابق بلال مسجد کوٹ ہتھیال میں تیرہ افراد رکے ہوئے تھے۔ مقامی پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ”ان میں سے ایک میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر تھیں۔ ہم نے متعلقہ شخص کو فوری طور پر ٹیسٹ کے لیے حاجی کیمپ بھیجا۔ وہ افراد محلے میں تبلیغ بھی کرتے رہے اور اب ہم نے پورا علاقہ لاک ڈاون کیا ہوا ہے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون کون ان سے رابطے میں رہا۔
دوسری جانب وفاقی وزارت صحت کے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ”میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ بہارہ کہو کے علاقے سے کرغستان کے ایک باشندے میں ہفتے کے دن وائرس کی تشخیص ہوئی۔ اس کے ساتھ رابطے میں آنے والے چھ افراد کا اتوار کو ٹیسٹ کرایا گیا، جن میں سے چار نئے کورونا وائرس کے شکار نکلے۔ اطلاعات ہیں کہ یہ افراد رائے ونڈ کے اجتماع میں شرکت کر کے یہاں آئے تھے۔
طبی ماہرین اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس اجتماع کے انعقاد اور اس میں شرکت کرنے والوں میں کورونا وائرس کی تشخیص سے متعلق پیش رفت پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر بخش علی کا کہنا ہے، ”اگر ہم نے احتیاط نہیں کی، تو ہمارے ہاں صورتحال چین، اٹلی اور ایران سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ اجتماع منعقد کرانے والوں کو کہا گیا تھا کہ ان حالات میں یہ اجتماع منعقد نہ کرائیں لیکن انہوں نے حکومت کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ خانہ کعبہ بند ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی مساجد بند ہیں۔ کربلا اور دوسرے اہم مقامات کو بند کر دیا گیا ہے۔ تو ایسے میں اس اجتماع کا ان حالات میں ہونا انتہائی پریشان کن بات ہے۔
ڈاکٹر بخش علی کا مزید کہنا تھا کہ اب ان لاکھوں افراد کا، جنہوں نے اس اجتماع میں شرکت کی تھی، پتہ کیسے لگایا جائے گا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ متعلقہ اشخاص کی اسکریننگ کیسے کرائی جائے گی اور کیسے معلوم کیا جائے گا کہ وہ کن کن افراد کے رابطے میں آئے۔ ”مجھے تو آنے والے دنوں میں بہت خطرناک منظر نامہ نظر آ رہا ہے۔
پنجاب کے شہر لیہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن قمر شیرازی کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے باوجود تبلیغی جماعت نے اپنے تمام چھوٹے اور بڑے اجتماعات جاری رکھے۔ ”لیہ میں ان کا آخری شب جمعہ دو دن پہلے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے سہ روزہ اجتماعات بھی مختلف شہروں میں ہوتے رہے۔ لیکن حکومت کے کسی اہلکار میں اتنی جرات نہیں کہ وہ انہیں روکے۔ میری اطلاعات ہیں کہ دو لاکھ سے چھ لاکھ کے قریب افراد نے رائے ونڈ اجتماع میں شرکت کی اور مجھے خطرہ ہے کہ پنجاب میں ایک بڑی تعداد میں کورونا وائرس کے کیسز اسی اجتماع کی وجہ سے ہوں گے۔
ملک کے کئی لوگ اس اجتماع کے انعقاد اور اجازت دینے والے افسران کے فیصلوں پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما بھی اس بات پر ناراض ہیں کہ حکومت نے اجتماع کے انعقاد کو کیوں نہیں روکا۔ پارٹی کے سینئر رہنما ظفر علی شاہ نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”مجھے حیرت ہے کہ حکومت نے کیسے اتنی بڑی تعداد میں افراد کی شرکت والے اجتماع کی اجازت دی، جس میں دنیا بھر سے لوگ آئے تھے؟ اور اب لوگوں میں کورونا وائرس کی تشخیص ہو رہی ہے، جس سے نہ صرف ملک میں طبی بحران آئے گا بلکہ اگر غیر ملکی تبلیغیوں میں بھی یہ تشخیص ہوئی، تو ملک کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
واضح رہے کہ تبلیغی جماعت پورے ملک میں پھیلی ہوئی اپنی مساجد میں شب جمعے کے اجتماعات ہر جمعرات کی رات کو منعقد کراتی ہے جب کہ ہر بڑے شہر میں ایک سہہ روزہ اجتماع ہر مہینے منعقد ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رائے ونڈ میں ایک اجتماع سال میں سندھ اور بلوچستان کا ہوتا ہے جب کہ دوسرے سال پنجاب اور کے پی کے لیے رائے ونڈ میں اجتماع ہوتا ہے۔ بین الاقوامی اجتماع بھی سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ ان تمام اجتماعات میں لاکھوں کی تعداد میں افراد شرکت کرتے ہیں۔ کے پی، سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں ذرائع کے مطابق ان میں سے کئی اجتماعات ایک ہفتے پہلے تک منعقد ہوتے رہے ہیں۔
ناقدین کورونا وائرس کی وبا کے پیش نظر ان اجتماعات کے انقعاد پر تنقید کرتے ہیں لیکن تبلیغی جماعت اس کا دفاع کرتی ہے۔ جماعت کی کراچی شوری کے رکن سید طارق ہاشمی نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنا موقف دیتے ہوئے سوال کیا، ”چین میں کورونا وائرس آیا، کیا وہاں کوئی تبلیغی اجتماع ہوا تھا؟ کیا ہم ایران میں کوئی تبلیغی اجتماع کر رہے تھے؟ کیا اٹلی والوں نے تبلیغیوں کا کوئی اجتماع منعقد کیا تھا۔ تو وبائی امراض قدرت کی طرف سے ہیں۔ اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں۔ لہذا تبلیغی جماعت اور اس کے اجتماعات کو ہدف تنقید بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔