تحریر : عتیق الرحمٰن تحریک لبیک کا دھرنا اسلام آباد سمیت ملک کے تمام شہروں ماسِوائے لاہور کے اختتام پذیر ہوا لیکن اپنے پیچھے بہت سے قابل غور سوالات چھوڑ گیا حلف نامہ اور انتخابی اصلاحات ایکٹ میں ترمیم کے در پردہ کون ملوث تھا، اس کے مقاصد کیا تھے اور اس میں کن احباب سے غلطی سرزد ہوئی ؟
حکومت پاکستان پر ہمیشہ امریکہ اور یورپ کا دباؤ رہا ہے کہ وہ ختم نبوت ﷺ قانون جو کہ انکے مطابق غیر مسلم آبادی کے خلاف استعمال ہوتا ہے تبدیل کرے، اور حال ہی انسانی حقوق کونسل (یونیورسل پیریاڈک ) کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں امریکی نمائندے نے پاکستانی وزیر خارجہ کو ختم نبوتﷺ کے قانون کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا. حکومت نے جو کہ کرپش ، ماڈل ٹاؤن قتل عام اور فوج سے اختیارات کی سرد جنگ کے باعث عدلیہ، اپوزیشن اور عوام کے ہاتھوں پریشر میں ہے گھٹنے ٹیک دیئے اور یہ ناقابل معافی جرم کیا. حکومت اس عمل سے مغرب کو یہ بھی باور کرانا چاہتی تھی کہ وہ ایک سکیولر جماعت ہے جو مغرب کے اشکالات کو دور کرسکتی ہے لہذا اسے سپورٹ دی جائے.
حلف نامے میں ترمیم کے معاملہ پر حکومت نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے دباؤ پر اسے فورا واپس لے لیا، لیکن ساتھ ہی انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 میں کمال مہارت سے ختم نبوتﷺ سے تعلق رکھنے والے کچھ قوانین کو ہی حذف کردیا ، اس سازش سے ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے پردہ اٹھایا . قابل غور بات یہ ہے کہ اس سازش کی تحقیق کے لیے بنائی جانے والی راجا ظفر الحق کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حلف نامے میں ختم نبوت کے حوالے سے تبدیلی میں صرف وفاقی وزیر قانون زاہد حامد ہی ملوث نہیں اس قانون کے بنانے میں پوری انتخابی اصلاحات کمیٹی جس میں تمام پارلیمانی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے 34 ارکان شامل تھے مجرم ہیں اصلاحات کمیٹی کے ۱۰۰ سے زائد اجلاس ہوئے، ان سیاسی جماعتوں میں حکومتی پینچ پر بیٹھنے والی جماعتوں کے علاوہ تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی، ایم کیوایم، مسلم لیگ (ق) اور جے یو آئی (ف) بھی شامل ہیں ۔ کیا ان جماعتوں کے ارکان اس قدر کم فہم تھے کہ وہ اس سازش کو نہ سمجھ سکے ؟
مسلم لیگ ن اور اسکی قیادت، ایم این ایز اور سینیٹرز جنہوں نے انتخابی اصلاحات کا بل بنایا, پوری اسمبلی اور سینٹ جس نے اسے پاس کیا اس معاملے میں کوئی بھی بری الذمہ نہیں –لیکن دھرنے دینے والی جماعت نے انکے استعفے اور اس گھنونی سازش کی تحقیق کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ اور صرف وزیر قانون کے استعفے پر کیوں اکتفا کیا گیا۔
دھرنے کی پلاننگ سے متعلق مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں حکومتی حلقے اسے فوج کے خاطے میں ڈال کر پریشر میں لانا چاہتی ہیں، دوسری جانب قابل ذکر احباب اور شواہد اسکے پیچھے ترکی میں گزشتہ سال کی بغاوت کی طرح حکومت کی کارستانی دیکھ رہے ہیں، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، کیپٹن صفدر اور دیگر حکومتی ارکان کے مشکوک بیانات اور دھرنے والوں کو وزیر قانون کے استعفے کی راہ دکھانے اور تقریباً ایک ہزار کی قلیل تعداد میں افراد کی موجودگی کے باوجود انہیں لاہور کی حدود سے نکل کر اسلام آباد میں آرام سے داخل ہونے دینے کے پیچھے حکومتی ہاتھ صاف نظر آرہا ہے. اس جرم کے پیچھے چھپے افراد اور مقاصد سے صرفِ نظر کرکے صرف وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ مولانا رضوی کے کردار کو بھی مشکوک بنا رہا ہے.
انتخابی اصلاحات ایکٹ کے ذریعے ختم نبوتﷺ کے طے شدہ معاملے کو چھیڑنے پر ملک کی تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں یک زبان تھی اور اس سازش کی تحقیق اور ذمہ داروں کے قرار واقعی سزا کا مطالبہ کر رہی تھیں اور پاکستان عوامی تحریک اور دیگر افراد کی پٹیشن پر عدالت اسے منسوخ بھی کر چکی تھی پھر ایک فرد کے استعفے کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟ اس مسئلے پر فوری ایکشن اور حکومت پر پریشر ڈالنے کے لیے تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر آواز بلند کرنا ضروری تھا پھر ایک نئی جماعت جو کہ بریلوی اور اہل سنت والجماعت میں کوئی قابل ذکر مقام نہیں رکھتی اور جس کے لیڈر کا کردار دیگر لیڈران کے خلاف توہین اور تزہیک آمیز رہا ہے اسلام آباد کی طرف بڑھنا اور دیگر لیڈران، میڈیا، ججوں اور سول سوسائٹی کے افراد کے خلاف گالم گلوچ کی زبان کے استعمال نے تمام جماعتوں کو دھرنے سے دور رکھا جس سے اصل مطالبے کو بے حد نقصان پہنچا۔
اسٹیج اور اس جماعت کے افراد کی گفتگو ایسی تھی کہ اسے میڈیا نشر کرنے کی بھی جسارت نہیں کر سکتا اور سونے پر سہاگا کہ اس غیر اخلاقی عمل کو قرآن، دین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت سے ثابت کرنے کی جسارت کی گئی. حکومتی عمل جہاں قابل گرفت ہے وہی دین کا لبادہ اوڑھے علماء کا اس قسم کا عمل بھی قابل گرفت ہے اسکالرز اور علماء کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے کہی ایسا نہ ہو کہ کم علم اور سادہ لوح عوام اسے عین دین نہ سمجھنے لگیں.
تحریک لبیک کے دھرنے میں افراد کی کم تعداد اور دیگر جماعتوں کے عملی طور پر شامل نہ ہونے کی وجہ سے 24 نومبر تک دھرنے نے کوئی قابل ذکر پزیرائی حاصل نہ کی اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا بھی اسے کوریج نہیں دے رہا تھا. حکومت نے عدالتی حکم کو جواز بنا کر دھرنے کو طاقت کے زور پر ہٹانے کا فیصلہ کیا جس وقت حکومتی ایکشن کا آغاز کیا گیا دھرنے میں 1500 افراد بھی موجود نہیں تھے حکومت نے 8000 کی نفری کے ساتھ صبح پیش قدمی شروع کی، جس میں نہ ہی کوئی حکمت عملی نظر آرہی تھی اور نہ دھرنے کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش. 3گھنٹوں میں عشقِ مصطفیٰﷺ سے سرشار دھرنا مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا اور صرف چند افراد اسٹیج کے پاس رہ گئے لیکن اس وقت کسی کے حکم کے تحت پولیس کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا. حیرت کی بات یہ ہے کہ پولیس ایکشن سے پہلے فیض آباد آنے والے راستوں کو نہ ہی بلاک کیا گیا اور نہ ہی ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کو بند کیا گیا – پولیس نے معصوم لوگوں پر ظلم کیا اور جب یہ مناظر میڈیا و سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچے تو عوام میں غم و غصہ کی لہر کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا.
عاشقان ِمصطفیٰﷺ کسی جماعتی وابستگی کو با لائے تاک رکھتے ہوئے ہر شہر میں روڑ پر نکل آئے پرامن مظاہرے متشدد ہوگئے جس میں چھ معصوم لوگوں کی شہادت ہوئی اور کئی سو زخمی بھی ہوئے، اور حکومت اپنے پلان میں کامیاب نظر آئی-حکومت نے ایسے میں اپنے اگلے پلان عاشقانِ رسولﷺ اور پاک فوج کو آمنے سامنے لانے اور کسی ممکنہ خون خرابے کے نتیجہ میں فوج کو بدنام کرنے کے لیے طلبی کا آرڈر جاری کر دیا. فوجی قیادت چونکہ حکومتی سازش کو سمجھتی تھی اس لیے یہ سازش ناکام ہوگئی. آرمی چیف نے حکو مت کو مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے اور میڈیا کو کھولنے پر زور دیا. اور بل آخر آرمی کی کوششوں سے معاہدہ طے پایا. اور حکومت کا سیاسی شہید ہونے کا خواب چکنا چور ہوگیا.
طے پانے والے معاہدے میں وزیر قانون کے استعفے پر اتفاق ہوا، لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ وزیر موصوف تو ایک مہرہ تھے اس گھنونی حرکت کے پیچھے اصل عناصر کو کیوں بچا لیا گیا. وہ معصوم عاشقانِ رسول ﷺ جنہوں نے شہادت حاصل کی انکی ایف آئی آر اور مجرموں کی سزا کا کوئی ذکر نہ ہوا، اور نہ ہی انکے خاندان کی کفالت کے لیے حکومتی امداد کا مطالبہ سامنے آیا. تحریک لبیک کا ایک ڈھڑا ابھی بھی لاہور میں 200-300 سو افراد کے ساتھ دھرنا دیئے بھیٹا ہے دونوں فریقین نے نہ تو ان سے بات کی اور نہ ہی انہیں اس معاہدے پر عمل درامد کے لیے قائل کیا.
آنے والے دنوں میں اس سازش اور دھرنے کے پیچھے چھپے اور بہت سے حقائق سے پردہ اٹھے گا. لگتا یہ ہے کہ ناموس رسالتﷺ اور عقیدہ ختم نبوتﷺ پر شہادت کا مرتبہ حاصل کرنے اور جدوجہد کرنے والوں کی قربانیوں کو تحریک لبیک اپنی سیاست اور آنے والے الیکشن میں استعمال کرے گی ، اگر ایسا ہوا تو تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان کٹھ جوڑ کا بیانیہ سچ ثابت ہوجائے گا جیسا کہ ماضی میں ہوا، عوام نے دین کے نام پر قربانیاں دی اور مذہبی لیڈران نے اسے کیش کروایا –