اسلام آباد (جیوڈیسک) وزیراعظم نواز شریف منگل کی شام وفاقی دارالحکومت واپس پہنچے تو انہیں میڈیا کے نمائندوں کی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہندوستان کے دورے کے دوران کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔
تاہم کچھ ہی دیر میں وزیراعظم کے سینئر معاونین نے مداخلت کرتے ہوئے اس تنقید سے نمٹنا چاہا۔ انہوں نے قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ ملاقات کامیاب رہی تھی۔
جب ان سے کہا گیا کہ وہ ایسی وجوہات کی فہرست دیں، جن کی رو سے اس دورے کو پاکستان کے لیے کامیاب کہا جاسکے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ نریندرا مودی نےوعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کا دورہ کریں گے، اس کے علاوہ انہوں نے سیکریٹری کی سطح پر بات چیت کو بحال کرنے اور اعلامیہ لاہور کو بھی آگے بڑھانے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے، جس پر 1999ء میں وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے دستخط کیے تھے اور جس میں واضح طور پر کشمیر کے مسئلے کا ذکر کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ دونوں وزرائے اعظم نے دو اجلاسوں میں شرکت کی، ایک وفد کی سطح کی بات چیت تھی، اس کے بعد دونوں کی دوطرفہ ملاقات تھی۔ انہوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کے اسباب پر لازماً تبادلۂ خیال کیا جائے۔
مذکورہ اہلکار نے کہا کہ ’’جی ہاں! دونوں ملکوں نے کشمیر کے مسئلہ پر اپنا مؤقف رکھتے ہیں، جس پر بات چیت کی ضروررت ہے اور دونوں نے ہی تسلیم کیا کہ اس پر مستقبل میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں اُٹھایا جانا چاہیٔے۔‘‘
انہوں نے بی جے پی کے موڈ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کا استقبال ہندوستان کے نئے وزیرِ داخلہ رنجیت سنگھ نے کیا، اس سے پہلے کے دورے میں واجپائی ان کی رہائشگاہ پر گئے تھے۔
مذکورہ اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ واجپائی جو کافی کمزور نظر آرہے تھے، نوازشریف کو دوبارہ دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول کی سطح پر آجائیں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’’اب اس سے زیادہ آپ ایک مختصر دورے سے کیا توقع کرسکتے ہیں؟‘ انہوں نے ہندوستان کے صدر اور ہندوستانی کارپوریٹ شخصیات کے ساتھ ملاقات، اور دہلی جامعہ مسجد کے دورے کے دوران نواز شریف کے گرمجوش استقبال کی بہت سی مثالیں پیش کیں۔