کوئٹہ (جیوڈیسک) ایران سے کوئٹہ آنے والی زائرین کی بس کو مستونگ کے قریب نشانہ بنایا گیا۔ خود کش حملہ آور نے سو کلوگرام بارود سے بھری گاڑی بس سے ٹکرا دی جس کے بعد آگ بھڑک اٹھی۔ دھماکے کی جگہ پر قیامت صغریٰ کا منظر ہے، دور دور تک انسانی اعضا اور سامان بکھرا پڑا ہے۔ دھماکے میں سیکورٹی کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔
جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ انہیں کوئٹہ کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔ دہشت گردی کے واقعے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر مختلف تنظیموں نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے کوئٹہ میں ایک روزہ ہڑتال کی کال دی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ صدر ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، آصف زرداری، الطاف حسین، عمران خان، منور حسن اور دیگر رہنماؤں نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
واضح رہے بلوچستان میں زائرین کی بس پر حملہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ دہشتگرد اس سے پہلے بھی درجنوں افراد کو موت کی نیند سلا چکے ہیں۔ یکم جنوری دو ہزار چودہ کو ایران سے آنے والی زائرین کی بس کوئٹہ مشرقی بائی پاس پر نشانہ بنی۔ واقعہ میں تین افراد جاں بحق اور انچاس زخمی ہوئے۔
اس سے پہلے چھبیس اکتوبر دو ہزار تیرہ کو مستونگ میں بس کو اڑانے کی کوشش کی گئی جسے ناکام بناتے ہوئے دو ایف سی اہلکار جام شہادت نوش کر گئے۔ تیس دسمبر دو ہزار بارہ کو بھی مستونگ میں ہی زائرین کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ دہشتگردوں کے حملے میں انیس افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔
اسی سال اکیس دسمبر کو بھی زائرین کی بس نشانہ بنی۔ دہشتگردوں نے تین افراد کی جانیں لے لیں۔ انیس ستمبر دو ہزار بارہ کو بھی دہشتگردی کے واقعہ میں تین زائرین جاں بحق اور نو زخمی ہوئے۔
آٹھ جون دو ہزار بارہ کو ایران جانے والی بس کو نشانہ بنایا گیا جس میں چھ افراد جان سے گئے۔ اسی ماہ کی گیارہ تاریخ کو بھی ایک بس کو ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے اڑا دیا گیا۔