میں صدائے غیرت ہوں سسک رہی ہے لبوں تلے جو اب تلک دبی دبی سی مری مری سی ابھی میری قوم کے جوان محو گفتگو ہیں رخ یار کی بابت ابھی منزل ان کی رنگین آنچل کی محبت ہے ابھی فر صت نہیں اس قوم کو روٹی کے ٹکڑوں سے ابھی اس قوم کو کپڑے اور مکان کی چا ہت ہے ابھی ملتا نہیں نام و نشان غیرتِ ملی کا ابھی بہنوں کی پکاروں پر بھی طوفان نہیں اٹھتا ابھی تو بیٹھ کر چا ئے کے کپ پر گفتگو کر نا جہاں بھر کا سب سے ضروری کام ہے ابھی تو قوم کی عزت سرِ بازار نیلام ہے ابھی اس قوم کے غیور بیٹے پہلو جاناں میں چھپتے ہیں محافظ بہنوں کے نرم بستر میں چھپ کر سو تے ہیں میری قوم کے دست و بازواب شمشیرو سناں کی بجا ئے دھا گوں سے سجتے ہیں ابھی اس قوم میں قاسم کے بیٹے شیشہ پیتے ہیں مگر پھر بھی میں کردوں سب کو یہ واضح نہ رہنا بھو ل میں کو ئی بھی میری قوم کی بابت نہ بھولو خواب میں بھی کبھی اس قوم کی طا قت اٹھے جو قوم یہ تو مشرق و مغرب سہم جا ئیں ہو جا ئیں ریزہ ریزہ للکار سے دیواریں قلعوں کی شکن جبیں کی تاب سے پتھر پگھل جا ئیں کچل ڈالیں گے یہ بھائی عدو بہنوں کی عزت کے ! بچا ئیں گے جان سے بڑھ کر یہ اپنی قوم کی حرمت
نہیں کو ئی شبہ اس قوم کی بیداری میں مجھکو یقین کامل ہے میرا بتلا دوں یہ میں تجھکو میری اس قوم کو تاریکیوں سے پھر ابھر نا ہے افق پر مانند مہتا ب میری قوم چمکے گی اسے عالم کے طول و عرض کو تسخیر کرنا ہے پھر کو ئی بہن ،کو ئی بھی بیٹی قید نہ ہو گی کسی کی چشم میں پھر کبھی بھی اشک نہ ہو نگے میری اس قوم نے اپنا جہاں تعمیر کرنا ہے میں صدائے غیرت ہوں مجھے بس اتنا کرنا ہے لبوں کی اوٹ سے اٹھ کر سماعتوں سے گزر کر قوم کی رگوں میں اترنا ہے