لاہور (جیوڈیسک) سیاسی پناہ کی باتیں کرنے والے سن لیں، پاکستان واپس جا رہا ہوں، قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا، نواز شریف کا لندن میں ورکرز کنونشن سے خطاب، جیل ہو یا پھانسی، مشن نہیں رکے گا۔
لندن میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف کا کہنا تھا کہ عوام کی خاطر واپس جارہا ہوں، میرا نام ای سی ایل میں ڈالنے والے بھی سن لیں، وہ بھی سن لیں جو میرے سیاسی پناہ کی بات کر رہے تھے۔ عوام سے وعدہ کیا ہے، حاکمیت کو بحال کر کے رہوں گا، ووٹ کو عزت دو کے فیصلہ کن مشن میں قوم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ اس مشن میں جیل ہو یا پھانسی قدم نہیں رکنے دوں گا۔ نواز شریف نےاعلان کیا کہ میں اور مریم کل شام پاکستان روانہ ہو رہے ہیں۔ اہلیہ کو وینٹی لیٹر پر چھوڑ کر دکھ کے عالم میں واپس جا رہا ہوں۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ 28 جولائی کے فیصلوں کی قسط ہے، مقدمہ اس لیے لڑ رہا تھا کہ سب انصاف کا حقیقی چہرہ دیکھ لیں، پاکستان کی عوام نے انصاف کا حقیقی چہرہ ایک بار پھر دیکھ لیا ہے۔ نیب کے جج نے بھی لکھا کہ میرے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں، میرے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوسکی۔ پھر بھی مجھے، بیٹی اور داماد کو سزائیں سنا دی گئیں۔ سزاؤں کا فیصلہ کہیں اور ہو چکا تھا۔ انتقام کی آگ میں جلنے والوں نے بیٹی کا مقام بھی نہ سوچا، انہوں نے مریم کو نہیں قوم کی بیٹیوں کی توہین کی۔ مریم کا کیا قصور کبھی وزیر نہیں رہی، مریم کو بھی 8 سال کی سزا سنائی گئی۔
نواز شریف نے کہا کہ مجھے بیٹے سے خیالی تنخواہ نہ لینے پر تاحیات نااہل کردیا گیا، کیا اس طرح ہوتے ہیں فیصلے؟ کیا اس طرح قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ مفروضوں کی بنیاد پر کئی، کئی سال کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ لاڈلوں، چہیتوں اور ہمیں کسی اور ترازو میں تولا جاتا ہے۔ آئین اور قانون کا مذاق کب تک اڑایا جائے گا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے پیچھے بیٹھ کر ڈوریں ہلانے والوں کے چہرے بھی بے نقاب ہوں گے۔ الیکشن سے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے ملکی تقدیر سے کھیلا جارہا ہے۔ اب پردے ڈالنے کا وقت گزر چکا، حقائق سامنے لانے کا وقت آگیا۔ اب زیادہ دیر چپ رہنا قوم سے غداری ہوگی۔ کب تک جیلوں میں سڑتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ کون لوگ ہے جو مجھے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ کون ہے جنہوں نے جیل کی کوٹھری تک بھجوانے کے لیے پورا ڈرامہ تیار کیا۔ کون ہے وہ جنہوں نے مطلب کا فیصلہ دلوایا۔ کون ہے وہ جو مرضی کے الیکشن کا نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کون ہے جو جیپ کے نشان پر لوٹوں کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ کون ہے جو بلوچستان میں راتوں رات حکومت بناتے ہیں۔ کون ہے جو چیئرمین سینیٹ کی کرسی پر صادق سنجرانی کو بٹھاتے ہیں۔
کون ہے جو چینل بند کر کے اپنے چینلز پر منتخب حکومت کو گالیاں دلواتے ہیں۔ کون ہے جو عوام کی رائے کو کچل کر اپنی رائے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ کون ہے وہ جو منتخب وزیراعظم کو کہتے ہیں استعفی دے کر گھر چلے جاؤ۔ کون ہے جو فسادیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ کیا وہ بھول گئے ہیں کہ پاکستان دو ٹکڑے کیوں ہوا؟ کیا آج وہ کام نہیں ہورہا جس کیوجہ سے پاکستان ٹوٹا تھا۔ کیا وہ نہیں جانتے قربانیاں دینے کے باوجود ہماری بات دنیا میں نہیں سنی جارہی۔ اب پاکستانی عوام ان سوالوں کا جواب لیکر رہے گی۔
نواز شریف نے مزید کہا کہ مجھے جیل میں ڈال دینے سے کیا ان سوالوں کو بھی جیلوں میں ڈال دو گے۔ 28 جولائی کو مجھے نکال کر چند لوگوں کا مشن کامیاب ہو گیا۔