آج ہر کوئی ایک دوسرے سے یہ ہی پوچھ رہاہے کہ ووٹ کسے دیاجائے اور کون سی جماعت ایسی ہے جو ان کے اور ان کے بچوں کے مستقبل کے لیے زیادہ بہتر ہے کیونکہ ووٹ ہی وہ واحد امید ہے جس کے زریعے ہم اپنے بہتر مستقبل کا تعین کرسکتے ہیں ،آج کچھ سیاستدان تو ایسے نظر آتے ہیں جوہمیں ایک ہی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں، مقصد کوئی دو بار اس ملک پر حکمرانی کا تاج سجا چکاہے تو کسی کو تین مرتبہ یہ موقع ملا کہ وہ اس ملک اوراس کی عوام کے لیے کچھ کرسکیں مگر ہر بار اور ہر دور میں بار بار اقتدار بنانے والوں نے اس ملک اور عوام کو کچھ نہ دیا اور یہ ہی نہیںاپنے ساتھ بیورکریسی کو بھی خوب مواقع فراہم کیے گئے کہ خود بھی کھائو اور ہمیں بھی کھلائو،پیپلزپارٹی کے پانچ سال اور اس کے بعد مسلم لیگ ن نے اپنے پانچ سال مکمل کیئے ان دونوں جماعتوں نے اپنے دس سالوں میں اس ملک کے ساتھ ایسے ایسے کھیل کھیلے کہ خدا کی پناہ کبھی ملک کے خلاف دشمن سے جاملے تو کبھی اپنی ہی فوج اور ادروں کو للکاراتے رہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر ووٹ کسے دیا جائے ؟ مگر اس سے پہلے ہم گزشتہ دو ادوار کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ عوام کو آسانی ہوسکے کہ ان دونوں بڑی جماعتوں کوووٹ دیا جاسکتاہے یا نہیں؟2018میں انتخابات کچھ اس قسم کے تھے کہ لوگوں کی ہمدردیاں پیپلزپارٹی کے ساتھ تھی کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے جلسہ گاہ میں قتل کردیا گیا تھا،یہ ایک ناخوشگوار واقعہ تھا لوگوں کو اس واقعے سے اس قدر ہمدردی تھی کہ انہوںنے یہ بھی نہ سوچا کہ ان کے ووٹ سے کس قسم کے لوگ ان پر مسلط ہونے جارہے ہیں فضل الر حمان جیسے مفاد پرست لوگوں نے بھی پیپلزپارٹی کا بہت ساتھ دیا اور پھر دونوں ہاتھوں سے مل کر اس ملک کو لوٹا بھی بہت،مسلم لیگ ن جیسی جماعت جو باریاں لینے پر یقین رکھتی ہے انہوںنے اپوزیشن میں بیٹھ کر جس اندا ز میںفرینڈلی اپوزیشن کاکردار ادا کیا اور مفاہمتی پالیسیوں سے خوب مواقع فراہم کیئے کہ پیپلزپارٹی اپنے جائز اور ناجائز فیصلوں میں مکمل آزاد ہے، یعنی ساری توجہ قومی خزانے کو چونا لگانے پر مرکوز رہی اور عوام کے کڑاکے نکلتے رہے۔
عوام کو مہنگائی ،بے روزگاری اور کرپشن کے دل میںپھنسادیا گیا پیپلزپارٹی کے پانچ سال مکمل کرانے میں مسلم لیگ ن اور مختلف گروپوں نے بھرپور کرداراداکیااس کے بعد 2013کے انتخابات میں زرداری پالیسیوں کو عوام نے مسترد تو کیا مگر کامیابی اسی جماعت کو ملی جو ہو بہو پیپلزپارٹی کی طرح لوٹ مار کی شوقین تھی یعنی مسلم لیگ ن نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مفاہمتی پالیسیوں کا پھل پالیا تھااور اب اس کی باری تھی اور ان کے ساتھ اب بھی وہ ہی گروپس کھڑے تھے جو پانچ سال تک پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، کیونکہ دونوں ہی جماعتوں کا ایک ہی ایجنڈا تھا اور وہ تھا “لوٹ مار” پھر جو کچھ ہوا عوام نے دیکھ لیا اس کی تفصیل میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عوام کے ابھی زخم تازہ ہیں ابھی کچھ ہی دن قبل مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے اورعوام نے ان دونوں بڑی جماعتوں کے دس سالوں کے سیاہ کرتوت کا بخوبی مشاہدہ کیاہے اور جس حال میں انہوںنے اپنی او ر اپنے بچوں کی پرورش کا درد بھی محسوس کیا ہے،آفرین ہے کہ اس کے باوجود بھی آج پھر ہر کوئی ایک دوسرے سے یہ ہی پوچھ رہاہے کہ ووٹ کسے دیاجائے؟،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ایسے لوگوں کو پھر سے ووٹ دے سکتے ہیں جنھیں بار بار ملک کی تقدیر سنوارنے کا موقع دیا گیا؟
یہ سوچنا بھی بے وقوفی ہے اور گناہ بھی کیونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتاہمیں یقینا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا چاہیے جو صرف اقتدار میں اس لیے آتے ہیں کہ صرف اپنوں کو نوازسکیں اور خود کی زندگیوں کو بہتر کرسکیں ان کی نظروں میں عوام کی ضرورت صرف پانچ سال بعد ہی پڑسکتی ہے اس سے پہلے یہ لوگ عوام کو کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر سمجھتے ہیں ؟ یہ ہر اس آدمی کے سوال کا جواب ہے جو یہ کہتاہے کہ ووٹ کس کو دیں ؟ ہمیں اب اس ملک کو مزید تجربہ گاہ نہیں بننے دینا یہ ہماراعہد ہونا چاہیے اور ہمیں ووٹ ضرور دینا چاہیے مگر ایسے لوگوں کو جو صرف اور صرف آپ کی فلاح وبہبود کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں جو اس ملک میں اداروں میں بہتری لانے کے خواہ ہو جو میرٹ کی بات کرتے ہو اور اس بار تو ہمیںووٹ لازمی دینا ہوگا کیونکہ اس عمل کے بغیر ہم کبھی اپنا مستقبل بہتر نہیں کرسکیں گے بس اس بار ہم نے بکنا نہیں جھکنا نہیں اپنا ووٹ اسے دینا ہے جو اپنے کردار اوراخلاق کی بنیاد پر سب سے اچھا ہو جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے دور کے دیئے زخموں کو ٹھیک کرکے ہمیں نئی زندگیاں دینے کا حوصلہ رکھتا ہو جو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی جانب سے اپنی عیاشیوں پر لیے گئے اربوں ڈالر قرضوں سے نجات دلانے کی طاقت رکھتاہو ،ہمیں دیکھنا ہے کہ کون سی سیاسی جماعت ان دوبڑی جماعتوں سے بہتر ہے اورکس جماعت کا منشور ایسا ہے جو ہمیں سابقہ حکمرانوں کی جانب سے دیئے گئے مسائل کا حل نکال کردے رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جمہوری عمل سے ہی عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے مگرجب جمہوریت اور اس کی حکمرانی کا کوئی بھی کام عوام کے لیے فائدہ مند نہ ہو تو یہ یہ ہی جمہوریت عوام کے گلے کا طوق بن جاتی ہے جس طرح سے مسلم لیگ ن اور اس سے قبل پیپلزپارٹی کے دور حکومت نے عوام کا خون نچوڑا ہے اس نے لفظ جمہویت سے عوام کو نفرت سی دلادی ہے لوگ آمریت کے ان لمحوں کو اپنے لیے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں جن میں ان کی زندگیاں مختلف جمہوری اداوار میں عذاب بنی رہی ،مگران سارے معاملات کا قصور جمہوریت پر عائد کرنا درست نہیں ہوتا بلکہ اس کی زمہ داری تو جمہوری دور کے ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے اپنی طرز حکمرانی کو آمریت سے بھی بدتر طریقے سے گزارا ہمیں الزام جمہوریت پر نہیں بلکہ اس میں ہونے والے رویوں پر عائد کرنا ہوگا جس کے ذمہ دار شریف خاندان اور پیپلزپارٹی کے عوام دشمن حکمران رہے ہیں ،اور یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت عوام کے لیے اس وقت بامعنی ہوتے ہیں جب ان کی زندگیوںمیں بہتری کے امکانات روشن ہو،اور جب جمہوریت کا مطلب پیسے والے لوگوں کی آپس میں جنگ بن جائے تو بھلا ایک غریب آدمی کو اس سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ،مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سب کو ہی ایک لائن میں لاکر کھڑاکردیں یقیناً ہمیں کسی نہ کسی پرتو اعتبار کرنا ہوگا، لازم نہیں ہے کہ سب ہی حکمران نوازشریف یا آصف زرداری کی سوچ کے حامل ہو ہاں یہ ضروری ہے اس بار ہمیں ان لوگوں کو اپنا قیمتی ووٹ نہیں دینا جنھیں ہم بار بار آزما کر دیکھ چکے ہیں۔
Haleem Adil Sheikh
تحریر : حلیم عادل شیخ سابق صوبائی وزیر ریلیف وکھیل 021.34302441,42 ۔ E:Mail.haleemadilsheikh@gmail.com