16مارچ کی رات تک ہر محفل ،میٹنگ ،سوشل میڈیا کے گروپ و دیگر اجتماع میں حکومت کے خاتمہ کی باتیں ہو رہی تھیں اور ہر شخص 5سالہ گورنمنٹ کی کارکردگی پر اپنا اپنا تجزیہ و مشاہدات پیش کر رہا تھا کو ئی صوبائی حکومتوں کی ناکامیوں کا ذکر کر رہا تھا تو کوئی مرکزی حکومت کے گن گا رہا تھا مگر حکومت کے خاتمہ اور نگران حکومت کے درمیانی دنوں میں نگران سیٹ اپ کا ذکر ہر ایک کی زبان پر تھا جیسے ہی کو ئی نام نگران وزیر اعطم کے لیئے پیش ہو تا اس کی ہسٹری میڈیا اور فیس بک پر چند گھنٹے کے اندر تمام دنیا کے سامنے پیش ہو تی حامی اس کی خوبیاں اور حریف اس کے پرانے کارنامے عوام کو بتاتے نظر آتے۔
نگران حکومت کے قیام کے بعد سونامی کا ایک منظر دوبارہ کپتان نے لاہور میں پیش کیا جس میں اللہ تعالی نے اپنی رحمت بھی برسائی کیونکہ عوام کرپشن کے سونامی کا مقابلہ کرنے کے لیئے اکٹھے ہو ئے تھے اس لیئے تیز ہوا ،بارش اور آندھی میں بھی میدان جنگ سے نہ دوڑے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم نے کرپشن کا خاتمہ ہر صورت کر نا ہے یہ و ہی کر پشن ہے جس نے ہمارے محبوب قائدین کے نظریہ و فلسفہ کا خاتمہ کردیا تھا بے شک 23مارچ1940کو قائد اعظم نے ایک کرپشن سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لیئے قرار داد منظور کی تھی۔
ممکن ہے کہ23مارچ2013کے جلسے میں کچھ حاضرین نے قدرتی بالوں کی کمی پوری کر نے کے لیئے مصنوعی بالوں کا استعمال بھی کیا ہو گا مگرطوفانی بارش نے بھی ان کو میدان سے بھاگنے کا حوصلہ دل میں پید انہیں کیا؟ممکن ہے انہوں نے سوچا ہو آج اس سونامی کو آنے دو بال تو دوبارہ لگوالیں گے بدترین لوڈ شیڈنگ کی بدولت راقم مولانا فضل الرحمن کی کانفرنس کا منظر ٹیلی ویژن پرنہ دیکھ سکا اور نہ ہی اپنے سینئر ماہرین کی آراء کو سن سکا اس لیئے اس کانفرنس پر ذکر کر نے کی استعداد سے محروم ہوں جس پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔
Nominations
31مارچ کے اختتام کے ساتھ ہی ہی امیدواروں کے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی مدت بھی ختم ہو گئی اور اکثر حلقوں میں پارٹیوں نے اپنے امیدوارفائنل بھی کر دیئے۔اور اب ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال ہے کہ ووٹ کس پارٹی کو دو گے ؟یا ووٹ کس امیدوار کو دو گے؟21ویں صدی میں ترقی کے ساتھ ساتھ ووٹر کا شعور بھی بیدار ہوا ہے اس لیئے بیشتر حلقوں میں پارتی ووٹ ڈالا جاتا ہے اور بیشتر میں زمیندار ،جاگیر دار،خادم وغیرہ کو ووٹ ڈالا جاتا ہے جبکہ کچھ حلقوں میں اچھی ساخت ،کردار کے حامل فرد کو ووٹ دیا جاتا ہے لیکن یہ آٹے مین نمک کے برابربھی نہیں ہوتے ۔قارئین ووٹ ہمیشہ عوامی، فلاحی ،معاشرتی ،سماجی ،پالیسی کی حامل سیاسی پارٹی کے امیدواران کو دینا چاہے۔دنیا کی تمام سیاسی پارٹیاں الیکشن کے میدان میں اُترنے سے پہلے اپنا منشور عوام کے سامنے رکھتی ہیں۔
جس میں پارٹی کا آئندہ کا پروگرام اور سوچ کا خاکہ موجود ہو تا ہے اور تمام پارٹیاں کا میابی کے بعد ملک میں موجود تمام قوانین وپالیسیوں کو اپنے منشور کے مطابق تشکیل دیتی ہیں اور آئندہ آنے والے الیکشنوں میں نئے منشور وجذبات کے ساتھ میدان میں آتے ہیں ۔تقریباً تمام کی تمام سیاسی جماعتیں عرصہ اقتدار میں اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہوتی ہیں اور اپنے سابقہ حکمرانوں کی پالیسیوں کو ہی جاری وساری رکھتی ہیں مگر اچھی ساخت کی حامل اور جمہوری ممالک کی سیاسی جماعتیں غیر عوامی منصوبوں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور فلاحی منصوبوں کو جگہ نصیب ہوتی ہے مگر بدقسمتی پاکستانی سیاسی جماعتیں ہر الیکشن میں اپنا منشور تو جاری کرتے ہیں۔
مگر اس کی کاپی پاکستان عوام کے صرف چندہزار افراد تک موجود ہوتی ہے اکثر امیدوار بھی منشور سے مکمل طور پر واقف نہیں ہوتے اور حلقہ کے مسائل پر اپنا نظر یہ پیش کرتے رہتے ہے۔ عوام کو چاہے کہ وہ اپنے علاقے کے امیدواروںسے ان کی جماعت کامنشور طلب کریں پھر اس کا مطالعہ کریں اور تمام سیاسی جماعتوں کے منشور کا تجزیہ کرنے کے بعد جس کی پالیسیاں پاکستان کے مفاد میں ہو اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دے تاکہ ان کی پارٹی کامیاب ہونے کے بعد پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
ووٹ ایک امانت ہے جس کا استعمال ہر پاکستانی ووٹر پر فرض ہے اس لیے ہم کو چاہے کہ 11مئی کو ہونے والے انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال پاکستان کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کریں اور پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان لوڈشیڈنگ ،کرپشن ،چوری ڈکیتی ،جرائم ،فراڈ ،بلیک میلنگ افراتفری ،دہشت گردی ،فرقہ واریت ،برادری ازم کی دنیاسے نکل کر ایک اسلامی ریاست کے حصول میں کامیاب ہو سکے جہاں پر تمام انسان برابرہو ۔قانون کی حکمرانی ہو۔میرٹ پر فیصلے ہو تمام مسلمان بھائی بھائی ہو۔