پاکستانی قوم اور سورج مکھی میں ایک چیز برابری رکھتا ہے، سورج مکھی اُس طرف دیکھتا ہے جہاں پر سورج ہو جبکہ پاکستانی قوم بھی اُسی رُخ دوڑتے ہیں جہاں پر وقت کی ہوا چلتی ہو یٰعنی ان کی اپنی ذاتی سوچ ورائے کی کوئی دخل نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ 1947 سے لیکر آج تک مورثی سیاست مظبوط سے مظبوط تر ہوتا ارہا ہے،سیاسی کاروبار میں نئی نئی انوسٹرز Investers سامنے ارہے ہیں اور بیچارے عوام کے مُنہ بند کرنے کیلئے وہی پُرانے چنے ایک نئی رنگ اور نئی زائقہ میں پیش کیا جا تا ہے۔
سیاسی کھیل کا انداز بھی نرالا ہے،یہاں پر کھیلنے والا کھبی بھی بکنے میں دیر نہیں کرتا خواہ اس کا سیاسی موٹو کچھ بھی ہو،اگرغیرت میں اکر کِسی ورکر نے بکنے پر اعتراض کرنے کی جُرات کی تو اس کو ”غداری” کی لسٹ میں شامل کرکے پارٹی میں مولانا حُسین احمد اور شاہ محمود قُریشی کی طرحIgnore کرکے ذلیل کیا جاتا ہے۔اج کل سیاست کا بزنس بڑی زور شور سے برپا ہے،ہر ایک نے اپنی ”پراڈکٹس” معصوم ووٹرز کا سامنے سجا سجا کے رکھے ہیں۔
بڑے بیباکی سے اوازیں لگا رہے ہیں کہ ائو ایک ووٹ کے خاطر قرضوں سے پاک اور خوشحال پاکستان لے لو، دوسرا کہتا ہے مھجے ووٹ دو میں تمہیں پاکستان سے سوئٹزرلینڈ بنائونگا، تیسرا کہتا ہے میں یہاں پر اسلامی نظام لائونگا جبکہ کسی نے امن،روزگار،قوم پرستی اور اپنی مٹی اپنا اختیار کا لیبل چسپاں کر رکھا ہے۔جبکہ درحقیقت اندر سے خالی ڈبے پڑے ہیں۔آج تک اس ملک کو ایسا سپوت نہیں ملا جس نے کُرسی کو عبادت سمجھ کر حاصل کی ہو۔
پچھلے دور حکومت میں PPP نے اگر پاکستان کے لیئے کچھ نہیں کیا تو اپنے جیالے ورکرز پر بڑے مہربانیاں کی۔فیڈرل حکومت کے پوسٹوں کا ریٹ ہر ایک کو معلوم تھا جو ان جیالوں کے ہاتھوں سے ہو کر گزرتا تھا۔ابھی آتے ہیں ووٹ کے مقدمے کو کہ ووٹ کس کو دیا جائے اور یہی سوال ہر ایک قاری اور فرد کے زبان پر عام ہے۔اکثر قارئین اعتراض کرتے ہیں کہ کالم نویس نکتہ چینی تو کرتے ہیں لیکن کسی مسئلے کا حل نہیں نکالتا اور اج اس پرابلم کا حل ضرور نکالینگے۔
Vote Pakistan
پیارے دوستوں! کسی کو ووٹ کیلئے چننے سے پہلے دو چیزیں جاننا ضروری ہے(١) ووٹ کی اہمیت: یٰعنی میرے اس ایک ووٹ سے کیا ہو سکتا ہے؟ میں جس کو ووٹ دیتا ہوں یہ اگے جاکر کیا کریگا؟ اس ایک ووٹ سے اسمبلیوں میں ہونے والے فیصلوں کا اثر ہوگا؟ اگر غلط فیصلے کئے گئے تو کیا میں بھی گناہگار رہوںگا اور اللہ کی گرفت ہوگی؟(٢) سیاسی شعور: یہاں پر معلوم ہونا چاہے کہ ووٹ مانگنے والے شخص کا کردار اور معاملات کیا ہے،ان کے پارٹی کا کیا ریکارڈ ہے،معاشرے میں ان کے ورکرز کا کیا کردار ہے،کیا یہ شخص آگے جاکر پاکستانی مسائل حل کر سکتا ہے۔
ڈرنے والا اور بکنے والا تو نہیں،تعلیمی قابیلیت اور بول چال کیسا ہے؟اگر ووٹر کوان باتوں کا خوب علم ہو اور پھر فیصلہ کرنا چاہتے ہو تو آخر میں اپنے اندر کی” ضمیر ” کو جنجھوڑ کر پوچھنا چاہیے کہ میں حق پر ہوں کہ نہیں اور ساتھ ہی جس کو ووٹ دیتا ہوں وہ حق کا ساتھی ہے یا شیطان کا۔روزِ اول سے قدرت کے اس کارخانہ میں حق اور نا حق کی کُشتی جاری ارہی ہے،اس نیلے آسمان نے حق کیلئے آواز اُٹھانے والے اللہ کے برحق پیغمبروں کو اروں سے چھیرتے ہوئے دیکھا ہے۔
امامِ حُسین کوجابر حکومت کو ووٹ نہ دینے کی عوض شہید کرنا آج کے دن ناحق امریکہ کے خلاف ذبان درازی کرنے کے بدلے گونتاناموبے جیل میں سڑنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے اج ہم اچھے بہانے ڈھونڈتے ہیں کہ میرے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑیگا؟میرے بھا ئی اللہ اگر پوچھے گاتو ہم سے ہمارے استطاعت اور قوت کے بارے میں کہ تم نے ظلم مٹھانے کیئے کیا کیا تھا،اگر ظلم کی لمبی اور خونخوار رات ہو تو کھونے میں بیٹھا ایک معمولی جگنوں دور سے نظر اتا ہے۔
خواہ ہمارے اواز میں دم ہو یا نہیں بس ہمیں حق کے علم تلے تب تک لڑنا چاہیے کہ ہمیں ہمارے ضمیر ملامت نہ کریں کہ اخر تو نے ناحق کو دبانے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟آج کے دور میں کسی ایک فرد میں یہ ہمت نہیں کہ ظلم کے خلاف برملا آواز اُٹھائیں تو ائیے اپنے قیمتی ووت کے ذریعے ظُلم ہاتھ روکیں اور پیارے پاکستان کو خالی نعروں سے نہیں بلکہ گولی سے طاقتور ووٹ کے ذریعے وہ لازوال خوشیاں لائیں جس کا اس مٹھی کو انتظار ہے۔