اللہ کی عدالت

Court

Court

تحریر : روہیل اکبر

ووٹ کو عزت دو کا نعرہ مستانہ لگا کر آخر کا روہ اپنی عزت بچا کر لندن پہنچ گئے اور اسکے پیچھے مولانا فضل الرحمن کا پلان نمبر ایک،دو اور پھر تین کتنا کارفرما رہا یہ سبھی جان چکے ہیں کیونکہ مولانا صاحب نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر وزیراعظم کو صرف دو دن کا وقت دیتے ہوئے اپنا استعفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا اور نہ دینے کی صورت میں وزیراعظم ہاؤس جاکر گرفتار کرنے کا اعلان بھی فرمایا تھااور ہاں اس وقت تک دھرنہ ختم نہ کرنے کا کا اعلان بھی کیا تھا کہ جب تک کپتان کا استعفی نہ آجاتا جبکہ مذاکراتی ٹیم اور خود مولانا صاحب کہتے رہے کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم وزیراعظم کا استعفی جیب میں ڈال آئے گی تو مذاکرات ہونگے ورنہ نہیں مگر وقت گذرتا رہا مولانا صاحب تیل اور تیل کی دھار دیکھتے رہے اور جو انکے اصل عزائم تھے ان پر حکومت نے بھی تیزی سے کام شروع کر دیا۔

سب سے پہلے میاں صاحب کو جیل سے نکالا گیا اسی کام میں دو دن سے زائد کا وقت لگ گیا کاروائی آگے بڑھتی دیکھ کر مولانا صاحب نے بھی وقت آگے بڑھا دیا اور ساتھ ہی پرانا بیان نئے مرچ مصالحوں کے ساتھ پھر داگ دیا کہ وزیراعظم کے استعفے کے بغیر تو ہم یہاں سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے وقت گڑتا رہا میاں نواز شریف جیل سے ہسپتال پہنچ گئے مولانا صاحب نے بھی وزیراعظم کے استعفی لیا بغیر اپنا پلان اے یعنی دھرنا ختم کردیا اور ساتھ ہی پلان نمبر 2پر عمل کرنے کا اعلان کردیا دھرنے والے اٹھ کر اپنے اپنے علاقوں کو واپس روانہ ہوگئے اسی دوران میاں صاحب کو باہر بھجوانے کا معاملہ سامنے آگیا جس میں کچھ تاخیر ہوئی تو مولانا صاحب نے ملک کی چند ایک شاہراہوں پر اپنے بندے بٹھا کر سڑکیں بلاک کردی اسی دوران میں صاحب کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کے حوالہ سے کیس کی سماعت شروع ہوگئی اورمیاں صاحب کو باہر جانے کی اجازت مل گئی اورایک بار پھر مولانا صاحب نے اپنے بیان سے یوٹرن لیتے ہوئے پلان بی پر بھی عملدرآمد روک دیا مگرای سی ایل پر نام ہونے کی وجہ سے میاں صاحب قطر سے آنے والی ائر ایمبولینس تک نہ پہنچ سکے جسکے بعد مولانا صاحب نے اپنے پلان نمبر3کا اعلان کردیا۔

یعنی اب میں شاہراہوں کی بجائے انکے کارکن شہروں کے اندر دھرنا دیکر شہریوں کا آناجانا بند کرینگے گے مگر اللہ بھلا کرے ہماری عدالتوں کا کہ جنہوں نے انتہائی کم وقت میں میاں صاحب کے حق میں فیصلہ دیا انکا نام ای سی ایل سے نکلا اور وہ آخر کار اپنے گھر اپنے بیٹوں کے پاس پہنچ گئے جسکے بعد ہر کسی نے سکھ کا سانس لیا اور یوں عوام کی دھرنوں سے جان چھوٹی مگر سوچنے سمجھنے کے ساتھ ساتھ کتنے دکھ،افسوس اور شرم کی بات ہے کہ پاکستان کا تین بار وزیراعظم رہنے والا میاں نواز شریف پورے ملک میں اور پھر تین مرتبہ ہی پنجاب کا وزیراعلی منتخب ہونے والا اسکا بھائی میاں شہباز شریف پورے صوبہ پنجاب میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہ بنا سکا جہاں پر مشکل وقت میں انکااپنا علاج ہی ممکن ہوسکتا بدقسمتی دیکھیے ہماری کہ آج ترقی کے اس تیز ترین دور میں بھی سرکاری ہسپتالوں کے بیڈ پر ایک نہیں دو نہیں بلکہ تین اور چار مریضوں کو بٹھا کر انکا علاج کیا جاتا ہے اور ان میں سے اکثر وہ ہسپتال ہیں جو قیا م پاکستان سے قبل بنائے گئے تھے ہمارے حکمرانوں نے نہ صرف ان ہسپتالوں کا بیڑہ غرق کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ ایسے تما م محکموں کو بھی نیست نابود کردیا۔

جہاں جہاں سے عوام کو ریلیف ملنا تھا ہمارے قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا دی گئی جن محکموں نے قانون پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے وہاں نااہلوں کو بٹھا دیا گیا ہماری پولیس حکمرانوں کی غلام بن گئی تھانے بکنے لگے سفارش اور پیسے کے زور پر تعینات ہونے والے تھانیداروں نے تیسرے،چوتھے اور آخری درجہ کے تشدد سے غریب عوام کی پیٹھ سے کھال ادھیڑ کر ووٹ کو عزت دینے کا عملی مظاہرہ شروع کردیاایف آئی آرٹاؤٹوں،کارخاصوں یا پھر پیسے والوں کی مرضی سے کٹنے لگی جیلوں میں عام لوگوں کی بھر مار ہوگئی اور پھر انصاف بھی بکنے لگا جسکے پاس طاقت اور پیسہ ہوتا وہی سرخرو ہوجاتا جسکے پاس پولیس اور وکیل کو دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا وہ چند ہزار جرمانے کی خاطر کئی کئی سال جیل میں گذار دیتا جہاں پر وہ کسی کا مشقتی بنا رہتا یا پھر جیل میں جھاڑو پونچا کرتا رہتا اوراگر پیسے والے نامی گرامی ڈاکوکسی مجبوری کے تحت جیل چلے جائیں تو وہ وہاں پر بھی حکمرانی کے مزے اڑاتے ہوئے نظر آئیں کسی کو کوئی شک ہو تو لاہور شہر کے اندر ڈسٹرکٹ جیل (کیمپ جیل) میں بند نامی گرامی افراد کو دیکھ لیں جن کے لیے بوفے لگتے ہیں جو سپرنٹنڈنٹ کے کمرے کو اپنا گھر سمجھتے ہیں جن کے لیے جیل کے اندر میٹنگ روم بنا ہوا ہے اور تو اور جیل میں ایسے بھی افراد ہیں جو آئے روز جیل سے عدالت میں پیشی کے لیے نکلتے ہیں مگر اپنے دفتر میں جاکر سب کام ویسے ہی سرانجام دے رہے ہیں جیسے گھر سے آکر پہلے سرانجام دیتے تھے۔

ہماری عدالتوں میں اب تبدیلی اور بہت تیزی آچکی ہے برسوں کے مقدمات سنے جارہے ہیں مختلف الزامات میں عرصہ دراز سے بند اور اسی دوران انتقال کرجانے والوں کو بھی انصاف ملنا شروع ہوچکا ہے مگر اسکے باوجود ابھی تک کچھ بااثر افراد کو تاریخ پہ تاریخ مل رہی ہے اور ان کیسز کا نتیجہ صفر بٹا صفر نکل رہا ہے ان میں سے کچھ مشہور کیسزابھی تک جوں کے توں ہیں جن میں شرجیل میمن کیس نتیجہ صفر،بلدیہ ٹاؤن کیس نتیجہ صفر،ڈاکٹر عاصم کیس نتیجہ صفر،صاف پانی نتیجہ صفر،ماڈل ایان علی کیس نتیجہ صفر،سستی روٹی تندور کرپشن کیس نتیجہ صفر،فواد حسن فواد کیس پر صرف ریمانڈ پر ریمانڈ نتیجہ صفر،احد چیمہ کیس ریمانڈ پر ریمانڈ نتیجہ صفر،پرویز رشید غداری کیس نتیجہ صفر،ارسلان افتخارکیس نتیجہ صفر،گستاخ بلاگرکیس نتیجہ صفر،ٹڈاپ کرپشن کیس نتیجہ صفر،رئیسانی حرام کمائی کیس نتیجہ صفر،نیو بینظیر ائرپورٹ کرپشن کیس نتیجہ صفر،رکن بلوچستان اسمبلی مجید پر ٹریف پولیس ملازم قتل کیس نتیجہ صفر،شہد کی بوتل والا کیس نتیجہ صفر،راجہ رینٹل کیس نتیجہ صفر،راؤ انوار پر قتل کیس نتیجہ صفر،عزیر بلوچ کیس نتیجہ صفر،اصغر خان کیس نتیجہ صفر،شاہ رخ جتوئی کیس نتیجہ صفر،عابد باکسرکیس نتیجہ صفر،12مئی قتل عام کیس نتیجہ صفر،ماڈل ٹاؤن قتل کیس نتیجہ صفر،حسین حقانی کیس نتیجہ صفر،حمزہ شہباز شریف کرپشن کیس نتیجہ صفر،خواجہ برادران کرپشن کیس نتیجہ صفر جبکہ ان تمام صفروں کے باوجود اس وقت لاہور ہائیکورٹ دنیا کی تیز ترین فیصلہ کرنے والی عدالتوں میں شامل ہو چکی ہے۔

جہاں ایک دن کیس لگتا ہے تو دوسرے دن فیصلہ ہوجاتا لیکن افسوس کہ یہ سہولت صرف بااختیار مجرموں تک ہی محدود ہے اسی لیے توکہتے ہیں کہ قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکل جاتا ہے آخر میں میری دعا کہ کہ چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے غریب عوام کو ریلیف دینے کا جو ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے وہ یونہی چلتا رہے اگر یہ رکھ گیا تو کوئی مظلوم یہ نہ کہہ دے کہ میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں کیونکہ اللہ کی عدالت میں ہر چیز انصاف کے ترازو میں تولی جاتی ہے وہاں کوئی نہیں بکتا اور نہ ہی کوئی اپیل ہوتی ہے اور پھر جو بھی فیصلہ ہوتا ہے وہ اٹل ہوتا ہے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر