محترم قارئین !ملک پاکستان کی عوام سیاسی شعور سے آراستہ عوام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ پاکستان کا ووٹر تقریبا اب ہر لحاظ سے جاگ چکا ہے اور خاص طور پر ہماری نوجوان نسل دھڑہ با زی کے جال سے آزاد دیکھا ئی دیتی ہے۔ کیونکہ عرصہ دراز سے ایک ہی رواج چلتا دیکھائی دیتا آ رہا تھا کہ عوام کو ایک کھڑپینچ بھیڑ بکری کی طرح اپنے ڈنڈے کی نوک پر رکھتا تھا اور ہماری سادہ لوح عوام بھی اس کے ساتھ ساتھ چلتی دیکھائی دیتی تھی جہاں اس کھڑپینچ (جو کہ ملک، چوہدری، رانا، ڈوگر، بھٹی، خان صاحب وغیرہ کے نام سے علاقے میں اپنا تعارف رکھتا ہوتا) کی مر ضی ہو تی وہ اپنی مرضی سے ووٹ پو ل کرواتا اور سیاسی مداریوں کو بھی اس صورت میں یہ سہولت تھی کہ ان کو عوام الناس کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑ تی تھی۔
وہ بھی کھڑپینچ کی پگ کو اونچا کر نے کی خاطر اس کے پاس جا تے اور عوام کے ضمیر کی آوازکا سودا کر کے آ جاتے۔ اس طرح وہ ووٹ پکا سمجھا جاتا۔ لیکن اب آزادمیڈیا کے دور میں آج کا نوجوان اس قدر متحرک دیکھا ئی دیتا ہے کہ تما م سیاسی مداریوں کو عوام کے پاس جانا پڑ تا ہے اور اس کا فا ئدہ یہ ہوا ہے کہ اب سیاسی لیڈر شپ کو یہ بھی دماغ میں رکھنا پڑتا ہے۔ کہ اگر اس مرتبہ عوام کے کام نہ کئے تو آئندہ عوام کو منہ کیسے دیکھا ئیں گے تو اس وجہ سے عوام کے مسائل کا حل کرنا ان کی مجبوری بن گئی ہے اور عوام نے بھی سیاسی شعور دیکھا کر ان کو اپنا طریقہ واردات تبدیل کر نے کی دعوت دی ہے جو کہ بہت بڑی تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔
قارئین ! میں روزانہ کی طرح آج جب online بیٹھا نیو ز پیپر کا مطا لعہ کر رہا تھا تو میر ی نظر سے ایک خبر گذری جس پرمیری نظر رک گئی کیو نکہ وہ میر ے ہی علا قے کی ایک سیاسی و سماجی شخصیت کی خبر تھی اور اس میں عوام کا احتجاج ریکارڈ کیا گیا تھا جس سے مجھے ایک طرف خوشی ہو ئی کہ میر ے علا قے کی عوام نے اپنے علا قے کے حق میں آواز لگا ئی ۔ اس قدر عوام میں شعور آنا علا قے کی ترقی کے لیے بہت خوش آئند ہے ۔ اسی لئے میں نے ابتدا میں ہی کہا کہ ہما رے ملک پا کستان کی عوام کو اللہ تعالیٰ نے وہ سیاسی شعور دے دیا ہے جس سے وہ اب کسی کھرپینچ کو بھی ملک کی دولت لوٹنے نہیں دیں گے۔ اور یہ تبدیلی کی ابتداء ہے۔
آئیے نظر دوڑاتے ہیں عوام کے احتجاج پر وہ کیا چا ہتے ہیں اور ان کا احتجاج کس حد تک درست ہے کیا کہیں کو ئی سیاسی چپقلش یا واقعی علا قے کی عوام کا احتجاج علا قے کی تعمیر و ترقی کے لئے اہم ہے۔ تو قارئین ق لیگ کے رہنما ء سابق نا ئب وزیر اعظم پاکستان اورسابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پر ویز الہی کے دور میںحافظ عمار یاسر کا طوطی بولتا تھا ۔ اور اس وقت پا کستان بھر میں حافظ عمار یا سر کو ق لیگ کے حوالے سے بہت پذیرا ئی ملی کیو نکہ ہر طرف ان کی بات جا نی ما نی جا تی تھی ۔ چو ہدری پر ویز الہی کے دست راست حافظ عما ر یا سرکا ضلع چکوال کی اعلیٰ ترین سیاسی شخصیات میں شمار ہو تا تھا ۔تلہ گنگ کی عوام نے حافظ عمار یا سر کی وساطت سے اپنے ذاتی اور علا قا ئی کام کرا ئے ۔ ضلع چکوال میں ریکارڈ کام کروانے کا اعزاز ق لیگ کو ملا کیو نکہ حافظ عما ر یا سر نے چوہدری برادران کی پو ری توجہ اپنے علا قے کی محرومیوں کے خاتمے کے لئے دلوا ئی ۔ جس کی بدولت ہما رے علا قے میں سو ئی گیس ،تعلیم ، صحت ، اور عوام الناس کی بھلا ئی کے لئے بہت سے پرو جیکٹس پر توجہ دی گئی اور ان پر عمل دوآمد بھی کیا گیا۔ جس کا تمام کریڈٹ حافظ عمار یا سر کو جا تا ہے۔
Chaudhry Pervaiz Elahi
عوامی و سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اسی دوران حافظ عمار یا سر نے چوہدری پرویز الہی کی پشت پنا ہی حاصل ہو نے کی وجہ سے جہاں اپنی تجو ریاں بھریں اور کروڑ پتی ہوا وہا ں اپنے علا قے کے ساتھ یہ زیا دتی کی کہ فوڈ گودام کی اراضی کو اپنی ما رکیٹ کے لیے را ستہ نہ ہو نے کی وجہ سے ایک کروڑ سے زائد ملکیت کی اراضی ما رکیٹ کے را ستے کے لئے مختص کر لی اور اس کے ساتھ مزید زیادتی یہ بھی کر ڈالی کہ ما رکیٹ کے لئے سرکا ری اراضی سے راستہ لینے کی خاطر کو ئی قانونی تقاضہ بھی پو را نہ کیا گیا ۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اراضی سرکاری ہے اس لئے یہ واپس لی جائے۔
اس نیوز اور عوامی احتجاج کو پڑ ھنے کے بعد میں نے علا قے کی فضاء کا جا ئزہ لینے کے لئے کچھ معززین علا قہ سے رابطہ کیا جو کہ حافظ عمار یا سر کے قریبی احباب میں شمار ہو تے ہیں ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک اراضی کا مسئلہ ہے تو وہ حافظ عمار یاسر نے اپنی مارکیٹ کو راستہ دینے کے لئے حاصل کیا ہواہے۔کیو نکہ حافظ عمار یا سر کی مارکیٹ فوڈگودام تلہ گنگ کی پچھلی جا نب واقع ہے اور اگر اس مارکیٹ کو راستہ نہ دیا جا تا تو اس کی ویلیو وہ نہ ہو تی جو آج ہے اور اس کے قا نونی مراحل سے انہوں نے بھی لا تعلقی کا اظہار کیا کہ اس حوالے سے وہ کچھ نہیں کہ سکتے کہ قانونی طور پر انہوں نے اس کا حصول کیا ہے یا غیر قانونی۔
کیو نکہ جس دور میں انہوں نے اس پر قبضہ کیا تب ان کا اثرورسوخ انتظامی امور پر بھی چلتا تھا۔ پھر میں نے یہ سوچا کہ کیوں نہ حافظ عمار یا سر سے را بطہ کیا جا ئے اس سے یہ بات واضع ہو جا ئے گی کہ اگر انہوں نے اراضی حاصل کی یا اس پر بقول عوامی حلقوں کے کہ قبضہ کیا تو اس کا قانونی تقاضہ پورا کیا یا کہ نہیں تو ان کو بار بار فون کر نے کے باوجود ان سے بات نہیں ہو سکی کیو نکہ یہ محترم کی آج کی نہیں بلکہ بہت پرا نی عادت شریفہ ہے کہ وہ کال اٹنڈ کر نے سے کتراتے ہیں۔ حالانکہ عوامی وسماجی ہو نے کے لئے ہر معاملے پر عوام میں گھل مل کر رہنا ان کے لئے ضروری تھا لیکن ان کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ خود کو عوام کے لئے پیش نہ کرنا بھی ہے۔
اس کے بعد میں نے ابھی کالم لکھنے کے ٹائم ایک ٹرائی مزید کی کہ شائد بات ہو جا ئے لیکن موصوف نے کال اٹنڈ نہیں کی بحر صورت قارئین ہماری یہ صحافتی ذمہ داری ہے کہ ہم بات کی تہہ تک جا ئیں۔ جس کی خاطر ہم نے اپنا فرض ادا کیا۔ میری را ئے اس تما م مسئلے کے حوالے سے حافظ عمار یا سر کو یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور ہر انسان نے رب کو جان دینی ہے۔
اس جہان اگر وہ کسی طرح ملی بھگت کر کے کاغذات وغیرہ کی شکل بگاڑ کر ہو سکتا ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بچ جا نے کا سامان کر لیں لیکن میر ے بھا ئی اس عارضی ٹھکا نے سے ایک نہ ایک دن جانا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس جا کر اپنا منہ دیکھا نا ہے تو بہتر ہے کہ اس طرح کی الجھن یہاں پر ہی ختم کر جا ئیں تا کہ آنے والی وہ زندگی جو کہ نہ ختم ہو نے والی ہے اس میں راحت اور سکون مل سکے۔ اللہ میرا اور آپکا حامی و نا صر ہو اور ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔اٰ مین
Malik Amir Nawaz
تحریر : ملک عامر نواز 00966-540715150 aamir.malik26@yahoo.com