تحریر : عابد علی یوسف زئی پنجاب کے حلقہ NA120 سے قومی اسمبلی کے رکن اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے نااہلی کے بعد جہاں قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے ذریعے نیا وزیر اعظم منتخب کیا گیا وہاں مذکورہ حلقہ میں ضمنی الیکشن کا بھی اعلان کرایا گیا۔ خالی سیٹ پر الیکشن کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں اور کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم کے نا اہلی کے بعد پی ٹی آئی کی بھر پور کو شش ہے کہ بڑا اپ سیٹ دے کر ن لیگ کے ہوم گراونڈ پر ان کو شکست دے دیں، تاہم مد مقابل ٹیم بھی پوری تیاریاں کر چکی ہے۔
این اے 120دراصل2002میں ماضی کے این اے 95اور 96کے علاقوں کو لے کر بنایا گیا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں ہونے والی حلقہ بندیوں پر الزام ہے کہ ترقی پسند ووٹ کی تقسیم کو مدنظر رکھ کر یہ حلقہ بندیاں ہوئیں۔17ستمبر کو میدان سجے گا ۔ این اے 120 میں مسلم لیگ نون کبھی نہیں ہاری، یہاں شریف فیملی کے حریفوں کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں اور اب کی بار کوئی اپ سیٹ نہ ہوا تو ایسا ہی ہوگا کیونکہ یہ مسلم لیگ نون کا گڑھ ہے مگر یہاں مقابلہ صرف جیت ہار کا نہیں ہے بلکہ این اے 120 میں مقابلہ شریف فیملی کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے کا ہے۔ اس نشست پہ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال سے لے کر ماضی کی پی ٹی آئی ( پاکستان تحریک استقلال ) کے اصغر خان اور پیپلزپارٹی کے جہانگیر بدر تک سب کو ہارنے کا اعزاز ہے مگر یہ مقابلہ شیر کی کچھار میں ہوتا ہے جہاں اسے للکارنا بھی بڑی کامیابی ہے۔
این اے 120 کی پوزیشن جاننے کے لیے ایک سروے رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں۔ پلس کنسلٹنٹ کی NA120کی ڈور ٹو ڈور تہلکہ خیز سروے رپورٹ پبلک کر دی گئی ہے جس میں مجموعی طور پر62فیصدعوام نے مسلم لیگ(ن)کو ووٹ دینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ حریف جماعت تحریک انصاف کے حق میں صرف 23فیصد عوامی رائے سامنے آئی ہے۔جبکہ پی پی پی کیلئے2فیصد ،جماعت اسلامی کیلئے 2فیصد عوام نے اپنا ووٹ دینے کا اظہار کیا ہے۔ 9فیصد وہ عوام ہے جنہوں نے تاحال فیصلہ نہیں کیا جبکہ 1فیصد نے ووٹ نہ دینے کا حتمی فیصلہ کرلینے کا بتایا ہے۔یاد رہے کہ پلس کنسلنٹ کے 2002اور 2013میںاین اے 120میں کئے گئے سروے رپورٹ کی الیکشن نتائج سے واضح مماثلت نظر آئی تھی اِس لئے عوامی حلقے میں اِس سروے رپورٹ کو کافی اہمیت دی جارہی ہے۔
آپ کے خیال میں کونسی پارٹی جیتے گی؟ جواباً 69فیصد مسلم لیگ(ن)،22فیصد پی ٹی آئی، 1فیصد پی پی پی کے حق میں عوامی رائے کا اظہار کیا گیا ہے اور7فیصد کا کہنا ہے کہ علم نہیں۔34فیصد عوام اِس لئے مسلم لیگ کو ووٹ دینے کی خواہشمند ہے کہ اِس جماعت نے ملک کیلئے اچھے کام کئے اورملک میں ترقیاتی کام کرواتے ہیںجبکہ 29فیصد عوام اِس لئے پی ٹی آئی کے حق میں ہے کہ یہ نئی جماعت کو آزمانا چاہتے ہیں ۔ تبدیلی کی وجہ سے فیصلہ کن سوال کہ آپ کن امیدوار کو ووٹ دینا پسند کریں گے؟ 64فیصد عوام بیگم کلثوم نواز،25فیصد ڈاکٹر یاسمین راشد، 1فیصد فیصل میر،2فیصد ضیاء الدین انصاری کے حق میں اپنے ووٹ دینے کا عندیہ دیا جبکہ 8فیصد عوام نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔عوامی رائے کے مطابق بیگم کلثوم نواز کے 69فیصد جیتنے کا امکانات روشن ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد23فیصد کے دوسرے نمبر پر اور فیصل میر1فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کون میدان مار کر سر خرو ہوتا ہے اور کس کے نصیب میں شکست سے دوچار ہونا لکھا گیا ہے۔ 5مضبوط ترین امیدواروں میں سے کانٹے دار مقابلہ پی ٹی آئی اور نون لیگ کا ہے۔ شریف خاندان اگر این اے 120 سے جیت گیا تو یہ بات بھی طے ہوجائے گی کہ صرف پانامہ کی بنیاد پہ تحریک انصاف الیکشن نہیں لڑسکتی اور کرپشن شاید ووٹر کا مسئلہ نہیں۔