پوری دنیا میں بے شمار ملک ایسے ہیں جہاں رائج نظام کو جمہوریت کے نام سے پکارا جاتا ہے اور عوام سے بذریعہ ووٹ سیاسی جماعتیں اپنے منشور کو پیش کر کے مستقبل کے لائحہ عمل سے عوام کو اگاہ کرتی ہیں اور حمایت حاصل کرنے کی کو شش کی جاتی ہے ان سیاسی پارٹیوں کو عوام ووٹ کے ذریعے مسترد کرتے ہیں یا اپنے ووٹ سے کامیاب کرکے مسند اقتدار تک لیجاتے ہیں۔
ہمارے وطن عزیز میں بھی الیکشن ہوتے ہیں لوگ ووٹ بھی کاسٹ کرتے ہیں لیکن منشور سے زیادہ امیدوار کو اہمیت دی جاتی ہے اور ووٹ ڈالتے وقت امیدوار کا علاقائی اثرورسوخ اور برادری ازم کلیدی رول ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے آج تک تمام جمہوری ادوار عوام کو خاطر خواہ ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ہمیشہ سابقہ حکومتوں کا سیاپا کرتے ہوئے اپنا وقت گزارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔جمہوری ادوار میں عوام کو ریلیف نہ ملنا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم اپنا ووٹ کاسٹ کرتے وقت اپنے ضمیر کی آواز سننا پسند نہیں کرتے؟
یہ آج کا موضوع اور صورتحال ہے جس پر بحثیت پاکستانی ہمیں سوچنا ہو گا۔ ہم دنیا کے جس خطے میں بھی رہتے ہوں اس جگہ الیکشن کا بگل بجتے ہی ہم اپنا پاکستان میں رائج انتخابی طریقہ اپناتے ہوئے میدان میں اتر جاتے ہیں جس کی وجہ سے یورپ کے بے شمار ممالک میں ہم اپنی آواز کو حکومتی ایوانوں تک کامیابی کے ساتھ پہنچانے میں اکثر ناکام ہوجاتے ہیں جس کا نقصان کامیاب نہ ہونے والوں کو تو ہوتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مقامی کمیونٹی کو بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ اس کمیونٹی کی آواز حکومتی ایوان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔
Municipal Elections
یورپ کے ایک ملک ہالینڈ میں اس طرح کی صورتحال گذشتہ کئی سالوں سے یہاں کے رہنے والوں کو مسلسل دعوت فکر دے رہی ہے۔ اس ملک میں آجکل بلدیاتی انتخابات کا موسم اپنی تمام تر سیاسی رعنائیاں لے کرماحول کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اور سیاسی جماعتوں کے امیدوار اپنے اپنے منشور کے ساتھ عوام کی خدمات کو پیش کر کے ووٹر عوام کو اپنی طرف مائل کرنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔ اگر ووٹ کو ضمیر کی آواز قرار دیا جائے تو پھر یقینی طور پر ووٹر کو امیدوار کی اہلیت اور میرٹ کو مدِنظر ضروری ہے لیکن اگر ووٹر یہاں یورپ میں رہتے ہوئے بھی برادری ازم کا شکار ہوجائے یا ذاتی تعلقات کو اہمیت دے کر ووٹ کا سٹ کرے گا تو شاید ایسی صورت میں ووٹ کو ضمیر کی آواز قرار دینا مشکل ہوگا۔
اصولی طور پر جو شخص ووٹ دینے کا اہل ہے اس شخص کو اس انتخابی عمل میں بطور امیدوار حصہ لینے کا مکمل حق ہے اس بنیادی حق پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی لہذا سب سے زیادہ اور بھاری ذمہ داری عوام پر عائد ہوجاتی ہے جس نے اپنے ووٹ کے ذریعے کسی بھی امیدوار کے بارے حتمی رائے کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ عوام الناس کو اس مرحلے پر جن امور کو پیشِ نظر رکھنا نہایت ضروری ہے اس میں سب سے پہلے اپنے ووٹ کی طاقت کو پہچاننا ہوگا اور اس ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانا ہو گا یعنی پولنگ کے روز گھر سے ضرور باہر نکلیں اور اپنے ووٹ کو اپنی پسند کے امیدوار کو دیں آپ کی پسند میں سب سے پہلے امیدوار کی تعلیمی اہلیت اور یورپین سوسائٹی میں اپنا مقدمہ مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کرنے کی جرات اور اہلیت ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ اس بنیادی اہلیت کے بغیر یورپ کے ایوانوں میں پہنچ جانا بھی شاید کسی کام نہ آ سکے گا۔
Election
یہ اسی وقت ممکن ہے جب امیدوار جس ملک میں بھی رہتا ہے اس ملک کی مقامی زبان پر عبور رکھتا ہوگا اس کے علاوہ امیدواروں کی انتخابی لسٹ بھی آپ کو کچھ ٹیکنکل صورتحال واضع کر دیتی ہے یعنی جو امیدوار انتخابی لسٹ پر شروع کے نمبروں پر ہے اس امیدوار کے کامیاب ہونے کے زیادہ چانس ہوتے ہیں بانسبت اس امیدوار کے جو انتخابی لسٹ کے آخری نمبروں پر ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں کوشش کرنا چاہئے کہ ہمارا ووٹ ہمارے ضمیر کی آواز بنتے ہوئے اہلیت کے حامل امیدوار کو جانا چاہئے تاکہ کامیابی کی صورت میں پوری کمیونٹی کی طرف سے ایک مضبوط آواز بن کر ہمارے حقوق کی ترجمانی ہوسکے اور بحثیت پاکستانی کمیونٹی حکومتی ایوان میں ہم باوقار مقام حاصل کر سکیں۔