تحریر : نرجس بتول علوی بی اے اور وفا ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ وفا کا فون آ گیا اور وفا کو جلدی واپس آنے کو کہا گیا وفا بی اے سوری مجھے جانا ہو گا کیونکہ امی کی طبیعت بہت خراب ہے بی اے پریشان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو تو آج ہی کچھ موقع ملا تھا وفا سے اپنے دل کی کچھ باتیں کرنے کا لیکن یہ اس وقت کچھ بھی نہیں کر سکا بی اے اور وفا دونوں کیفے سے باہرآتے ہیں وفا اپنی گاڑی میں جاتی ہے بی اے اداس سا ہے اور اپنی بائ یک پر گھر جاتا ہے میری چپ سی سمائ توں پر دل خراش سی دستک ہوتی ہے نیٹگ کرتے ہوں میرا دھیان بی اے کی طرح تھا کء روز سے وہ مجھے دل گرفتہ سا نظر آرہا تھانہ ہنسی نہ مزاق بس چپ چپ اور خاموش سا بلکل ٹھیک ہوں مجھے کیا ہونا ہے وہ ہنسا بڑی کھوکھلی سی ہنسی رات اس کے کمرے سے اس کے گنگنانے کی آواز باہر آرہی تھی مجھے حیرت سی ہوء کان لگا تو اس کے دل کا درد مزید نمایاں ہو رہا تھا بی اے کی آواز بہت اچھی تھی خاندان کی تقاریب میں اس کی شوخ وشنگ گیت بے حد پسند کیے جاتے تھے مگر اداسی کے گیت اس کے لبوں پر آکر مزید دکھ بھرے ہو جاتے اس کی درد بھری آواز میرا کلیجہ نوچے جا رہی تھی۔
اے زندگی میرا ساتھ دے مجھ سے بات کر میں اداس ہوں باد صبا تو رک ذرا مجھ سے بات کر میں اداس ہوں آسمان اور چاند کا کتنا گہرا رشتہ ہے پیار کا اے چاندنی نہ دور جا مجھ سے بات کر میں اداس ہوں تو کون ہے تیری ذات کیا اس بات کا کوء غم نہیں میرے ہمسفر میرے پاس آمجھ سے بات کر میں اداس ہوں میری چاہتوں کی گواہی تو میرے حرف دیتے ہیں بار بار اے بے وفا نہ مسکرا مجھ سے بات کر میں اداس ہوں نرجس تو آج دل سے کچھ پوچھ اور فریاد کر یوں بے سبب نہ تو ڈھڑک مجھ سے بات کر میں اداس ہوں
بی اے کے دم سے ماشااللہ ہمارے گھر میں اتنی رونق ہے اگر یہ خاموش اور چپ چپ ہوتا ہے تو سارا گھر بھائیں بھائیں کرنے لگتا ہے نٹنگ کرتے ہوئے میری تمام تر سوچ اس کی جانب مرکوز تھیں صبح بھی جلدی میں ناشتہ برائے نام کیا تھا اور جب میں نے اس کی پسند کے آلو کے پراٹھے سامنے رکھے تو وہ انہیں چکھے بغیر اٹھ گیا اے یہ اتنی محبت سے بنے ہیں اور تم نے ہاتھ تک نہیں لگایا میں نے حیرت سے سے اسے دیکھا دیر ہو گء ہے آج کل پروفیسر کا دماغ بھی خراب چل رہا ہے آکر کھالوں گا بائیک کی چابیاں اٹھا کر وہ برق رفتاری سے نکل گیا دیکھ رہے ہیں آپنے بی اے کو آج کل نہ کچھ کھا رہا ہے رات بھی برائے نام کھانا کھایا تھا اور اس وقت چائے کے دو سپ لے کر کپ ایسے ہی چھوڑ دیا اور یوں ہی کالج چلا گیا لگتا ہے اب موصوف کو کالج کے لیے اٹھانا پڑا کرے گا جس طرح بچوں کو اسکول کے لیے اٹھاتے ہیں ان کو بھی اٹھا دیا کریں گے کہ جلدی سے اٹھ جاؤ ورنہ بھوکے جاؤ گے۔
وسیم مسکرا کر بولے یہ بات نہیں ان دنوں وہ پریشان پریشان سا لگ رہا ہے اور کچھ بتایا تک نہیں ہے میں نے انہیں بتایا ابھی شاہانہ عادتیں ختم نہیں ہوء ہیں اس لیے یہ بات ہے خود ٹھیک ہو جائے گا مگر میرا دل وسیم کی دلیل سے صاف نہیں ہوا تھا کوء بات ایسی ضرور تھی جو وہ یوں خاموش خاموش سا تھا وال کلاک پر جب نظر ڈالی تو اس کے آنے کا وقت ہو چکا تھا مگر وہ ابھی گھر نہیں آیا تھا اس کی ہمیشہ سے عادت تھی کہ کہیں جانا ہوتا تو کالج سے گھر آنے کے بعد جاتا پھر فون پر اطلاع دیتا مگر آج وہ اپنے مقررہ وقت سے پچاس منٹ لیٹ تھا اللہ اس کو اپنے حفظ وامان میں رکھے میں نے دل ہی دل میں دعا کی یہ حقیقت تھی کہ بی اے مجھے اپنے بچوں کی طرح پیارا تھا ہماری چھوٹی سی فمیلی میں اس کے قہقہے رونق بکھیرا کرتے تھے یہی کہ اس کی خاموشی اور افسردگی مجھے بے حد محسوس ہوئی تھی اتنے میں بی اے گھر داخل ہوتا ہے اس کا اترا ہوا چہرہ سرخ آنکھیں میرے دل کو مٹھی میں لے لیا میں نے چونک کر بی اے سے پوچھا آج کہاں رہ گئے تھے بی اے صوفے پر لیٹ جاتا ہے بس پھوپھو آج بائیک خراب ہو گئی تھی میں نے اس کا سر گود میں لیا تو اس کا بدن بہت گرم ہے میں بی اے کی یہ حالت دیکھ کر بے حد پریشان ہو گء وسیم بھی کچھ دنوں کے لیے دفتر کے کام سے شہر سے باہر چلے گئے تھے میں نے بی اے کو دوا دی بی اے سو گیا لیکن مجھ سے بی اے کا یہ حال برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
شام کو کچن میں چائے بنا رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے بچے اکیڈمی گئی ہوئی تھے وسیم بھی گھر نہیں تھے بی اے سو رہا تھا میں چائے وہیں چھوڑ کر دروازے پر گء کھولا تو بی اے کا دوست ارشد ہے میں اس کو اپنے ساتھ لے کر اندر آتی ہوں ارشد پھوپھو جان کیسی ہیں جی بیٹا ٹھیک بیٹا سہی وقت پر آئی ہو میں چائے بنا رہی تھی تم بیھٹو میں لے کر آتی ہوں چائے تمھارے لیے ارشد ٹھیک ہے پھوپھو جان کچھ دیر کے بعد میں چائے لے کر ارشد کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہوں بہت سی باتیں کیں ارشد ادھر ادھر جھانک کر نواب صاحب کہاں ہیں پھوپھو کون نواب ارے ہمارے کالج کے روک اسٹار بی اے میں نے بتایا آج اسے بہت سخت بخار ہے کالج سے واپسی پر دوا دی تو سو گیا ارشد حیران ہو کر پھوپھو کالج سے واپسی پر بی اے تو اک ہفتہ سے کالج نہیں آیا میں اپنی جگہ سے اٹھ گء کھڑی ہوء اس کے الفاظ میرے دماغ پر انگ باری کی طرح برسے میں نے پریشانی سے پوچھا یہ تم کیا کہہ رہے ہو بیٹا ایسا نہیں ہوسکتا تم اس کے اچھے دوست ہو تم پتہ لگاؤ کے وہ آج کل کہاں ہوتا ہے مجھے بھی بہت بدلابدلا سا لگ رہا ہے نہ ہی وہ کچھ کھاتا ہے نہ ہی اس کی گھر میں پہلے جیسی شراتیں بھی نہیں ہیں بیٹا میں بہت پریشان ہوں یہ کہنا تھا کے میری آنکھوں سے بے ساختہ آنسوں ٹپک پڑے اور ارشد میری یہ حالت دیکھ کر بے حد پریشان ہو جاتا ہے۔
ارشد میرے آنسوں صاف کرتا ارشد پھوپھو جان آپ پریشان مت ہوں اللہ سب خیر کرے گا میں سب پتہ کرتا ہوں بی اے کا کہاں جاتا ہے کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے کیوں کرتا ہے ارشد اپنی کلاء میں بندھی گھڑی کو دیکھ کر او ہو پھوپھو جان بہت دیر ہو گء میں چلتا ہوں امی نے بہت ضروری کام سے بھیجا تھا پھر آؤں گا اورآپ بلکل بھی پریشان نہ ہوں ارشد چلا جاتا ہے ارشد کے جانے کے بعد میرے دل کا وہم اور بھی بڑھ گیا آج زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے بی اے پر غصہ آیا ہوا تھا اور اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ سے جھوٹ بولا اور مجھے مایوس کیا میں یہ بھی سوچ رہی تھی کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے جو بی اے نے مجھ سے جھوٹ بولا حالانکہ پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا شاید میرے پیار میں کوء کمی ہے جو بی اے مجھ سے بات شیر نہیں کر رہا آج کل پریشان بھی بہت ہے اتنے میں کمرے سے پھوپھو کے نام کی آواز آتی ہے میں نے آواز نہ دی پھر بی اے آواز دیتا ہے۔ جاری ہے۔