رحیم یار خان : سینئر بینکار اور معاشی تجزیہ نگار ممتاز بیگ نے پنجاب حکومت کے صوبائی بجٹ کے بارے میں بتایا کہ کم از کم اجرت 13 ہزار مقررکرنااچھا قدم لیکن اس پر عمل درآمدکرانا حکومت کا امتحان ہوگا۔
400 ارب روپے میں سے صرف 36 فیصدجنوبی پنجاب کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے مہیا کرنا اونٹ کے منہ میں زیرہ اور بچوں کے منہ میں پولیو ڈراپس کے برابر ہے۔حکومت کے مطابق یہ ایک تاریخ ساز،متوازن ،عوام دوست اور ترقیاتی بجٹ ہے جس میں کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا جبکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔
ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل اور اضافہ کرکے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی خسارہ کاعوام دشمن اور غریب کش بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔قرضوں میں جکڑی عوام مزید ٹیکسوں کے نیچے آجائے گی۔غریب عوام کیلئے اس بجٹ میں ریلیف نہیں بلکہ تکلیف ہے ،جاگیر داروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے سے گریز کیا گیا۔
معاشی ترقی کی شرح نمو کوپرائیویٹ سرمایہ کاری کے بغیر دگنا کرنا ناممکن ہوگا۔مہنگائی کم کرنے اور بیروزگاروں کو موزوں اور معقول روزگار فراہم کرنے کیلئے کوئی قابل عمل اقدام تجویز نہیں کیا گیا۔تعلیم، صحت،توانائی،پینے کا صاف پانی، کھیلوں، یوتھ سروسز، سپیشل بچوں کی فلاح کے منصوبوں،امن و امان کو کم اور لیپ ٹاپ پر 5 ارب روپے، اپنا روزگار سکیم کے تحت 50 ہزار گاڑیاں ، فلائی اوورز،انڈر پاسز، میٹروبس اور اورنج لائن ٹرین سروس جیسے نمائشی اور بے مقصد منصوبوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔
غیر ملکی امداد لانا، 4 نئے دانش سکول کھولنا، سولر پاور، ہائیڈل پاورمنصوبوںپر توجہ دینااچھے اقدامات ہے جبکہ سیلز ٹیکس کا نیا نظام مزید الجھنیں پیدا کریگا۔پراپرٹی ٹیکس میں اضافہ، دیہی عوام پرسی وی ٹی لگانا اورپروفیشنل ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھاکر 75 %فیصد اور 10 نئی سروسز پرجی ایس ٹی عائد کردینا ظلم ہے۔باربر شاپس پر ٹیکس جبکہ اربوں کی مالیت کے بڑے بڑے پلازے نظر انداز کر دئے گئے ہیںبجٹ کی اصل باریکیاں چند دن بعد سامنے آئیںگی۔