تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم ویلڈن ویلڈن جنرل قمر جا وید باجودہ ویلڈن، آج ساری پاکستانی قوم کو اپنے اندرونی اور بیرونی حالاتِ و اقعات کے تناظر میں آپ جیسے بہادر اپنے سپہ سالارِ اعظم کی جا نب سے اپنے امریکا اور بھارت جیسے پڑوسی دوست نمادشمنوں کامنہ توڑنے کے لئے ایسے ہی واشگاف اور برملاخطا ب اور دبنگ طریقے سے جوا ب ملنے کی اُمید تھی جس پر آپ پورے اُترے ہیں، چو نکہ پچھلے کچھ ماہ اور سال سے اندرونی طور پر سیاسی خلفشار کاشکاراپنے سِول حکمرانوں، سیاستدانوں اور سِول اداروں کی ما یوس کن کارکردگی کے پیشِ نظر خود کو بے آثرااور بے بس و مجبورسمجھنے والی پاکستانی قوم کواُمید ہو چلی ہے کہ امریکی اور ہندوستا نی مکاریوں اور مفادپرستی کا تر نوالہ بننے والے ہمارے جن سِول حکمرانوں ، سیاستدانوں اور سِول اداروں کی معنی خیز خاموشی کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی طور پر پاکستان خطرات کا شکار ہو گیاتھا جنرل قمرجا وید باجودہ کے مُلک دُشمن عناصر کے خلاف کئے جا نے والے اقدامات اور خطا با ت کے بعدوطنِ عزیز پاکستان محفوظ ترین مُلک بن گیاہے آج اِس میں کوئی شک نہیںہے کہ قوم کو یہ اُمید بھی پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستا نی قوم کو جنرل قمر جاوید باجودہ وہی پاکستان دینے کے خواہش مند ہیں جس پاکستان کی قوم کو پچھلے ستر سالوں سے تلاش تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ جیسے اَب پاکستان امریکی اور اِس کے اِدھر اُدھر کے حواریوں کے جادو ئی اَثر سے آزاد ہورہاہے اور عنقریب وہ دن کوئی زیادہ دور نہیںکہ جب پاکستان امریکی اور اِس جیسے دوسرے مفاد پرستوں کو خاطر میں نہ لا تے ہوئے دنیا کے نقشے پر پوری طرح ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر اُبھرے گا اور اپنا وہ مقام اور مرتبہ پا لے گا جس سے یہ ابھی تک محروم رہا تھایہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان اپنے قیام کے ستر سال کس طرح امریکا اور دوسرے ممالک کی جا نب سے گا ہے بگا ہے ملنے والے اچھے بُرے جادوئی ڈکٹیشنز کے زیراَثر رہا۔مگر اَب جبکہ 71ویں سال میں قدم رکھتے ہی ہما رے حکمرانو، سیاستدانواور اداروں کے سربراہان کو بھی عقل ڈاڑھ نکل آئی ہے اوراَب لگتا ہے کہ جیسے سترسالوں سے امریکی اشاروں اور اِس کے کہنے کے مطابق دودھ کو دُودھو اور پا نی کو مَم مَم کہنے والے دودھ او ر پا نی کی اصلیت کوپہچان چکے ہیں اور اِنہیںیہ احسا س ہوگیاہے کہ آخرہم کب تک امریکی کہنے کے مطا بق دودھ کو دودھو اور پا نی کو مَم مَم کہنے سے کا م چلاتے رہیں گے ؟؟آخر اَب کب تک امریکی چند مٹھی بھر ڈالرز کی مدمیںملنے والی امدادوں اور قرضوں کے عوض غیروںکی جنگ میں قر بانی کا بکرااور آگ کا ایندھن بنتے رہیں گے ؟؟آخر ہمارا بھی کو ئی وجود ہے کہ نہیں؟ ، آخر ہم کب اپنی آزادی اور مختاری کا امریکا اور اِس جیسے دوسرے مفاد پرستوں کو احساس دلائیں گے ؟؟ اور آزاد اور خودمختار ہوگے سو یہ سوچ کر چلیں بہت اچھا ہوا ہے کہ ستر سال بعد ہمارے کرتا دھرتا ذمہ داروں کو احساس ہوا اوریوں یہ دودھ کو دودھ اور پا نی کو پا نی کہنے کے قابل تو ہو گئے ہیں۔
تاہم اِس منظر اور پس منظر میں تب ہی ایک بڑے عرصے بعد اِس بات کا شدت سے احسا س ہوا ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں ایک آزادمُلک کی آزاد اور خود مختار قوم بن گئے ہیں، ایسا پہلی باراُس وقت محسوس ہوا تھاجب گزشتہ دِنوں خبطی امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی کے اعلان کے بعد ردِعمل کے طور پر دبنگ طریقے سے وزیرخارجہ خواجہ آصف کا امریکی سرپھوڑاورمنہ توڑیہ جواب” ہم نے ڈالرز لے کر نہیں خون بہا کر دہشت گردی کے خلاف بہادری کے ساتھ جنگی لڑی ہے“ سا منے آیا تھا اور دوسری مرتبہ اُس وقت خوشی اور مسرت کا احساس پیدا ہوا کہ جب ہمارے مُلکِ خداداد کے سپہ سالارِ اعظم چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ نے چھ اور سات ستمبر کی درمیا نی شب جی ایچ کیو میں یومِ دفا عِ وطن سلسلے میں یومِ شہدا ءکی منعقدہ تقریب سے خطا ب کے دوران پوری دنیا سمیت امریکا و بھارت اور خطے کے دوسرے ممالک کو للکارتے ہوئے دوٹوک اور صا ف اور واضح طور پر کہہ دیا کہ”بھٹکے ہوئے لوگ جہا د نہیں فساد کررہے ہیں،مسلط جنگ کو منطقی انجا م تک پہنچا ئیں گے۔