دیوار گورنر اور ظلم کی دیواریں

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : روہیل اکبر

کپتان نے اپنے سو دنوں کی کارکردگی کے اعلان کے بعد فوری طور جو فیصلہ کیا وہ گورنر ہاؤس کی دیواریں گرانے کا ہے جسکے بعدگورنر ہاؤس بھی آزاد ہو جائیگا آزادی ایک نعمت ہے جسکی قیمت ہم سب گذشتہ 71 سالوں سے ادا کرتے آرہے ہیں مگر یہ نعمت ہم سے روٹھی ہی رہی کبھی اسلام کے نام ہمیں نیلام کیا گیا کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے سہانے خواب دکھا کر ہمیں بیوقوف بنایا گیا تو کبھی روشنیوں کی چکا چوند سے ہمیں اندھا بنادیا گیااب تبدیلی اور نئے پاکستان کے نام پر کپتان کو اپنے سروں پر بٹھا لیا ہے ملک پی ٹی آئی کی حکومت کو ایک سو دن سے اوپر ہوچکے ہیں مگر وہ تبدیلی جسکا خواب عمران خان نے دکھایا تھا ابھی تک ملک کے کسی بھی کونے سے رونما ہونا شروع نہیں ہوئی خاص کر پنجاب میں تبدیلی کے جو بلند بانگ دعوے کیے گئے ان میں سے ابھی تک سوائے موٹر سائیکل والوں کے لیے ہیلمٹ کی پابندی اور غیر قانونی بیٹھے چند قابضین کی تعمیر کی ہوئی مختلف جگہوں کی توڑ پھوڑ کے علاوہ نئے پاکستان کی بنیادیں کہیں نظر نہیں آ رہی۔

پنجاب کے وزیر اعلی ابھی تک اپنی شناخت کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے لگتا ہے کہ ابھی بھی وہ اپنے آپ کو تحصیل ناظم کی سطح کا وزیراعلی ہی سمجھ رہے ہیں کوئی محکمہ سیدھا ہوا نہ ہی کوئی سرکاری ملازم راہ راست پر آسکا سوائے تبادلوں کے سیلاب کے اور کوئی قابل ذکر کارنامہ پنجاب حکومت کے نامہ اعمال میں شامل نہیں ہے لگتا ہے کہ عمران خان کی بہتری کی تمام کوششوں کو پنجاب حکومت میں شامل تمام اتحادی مل جل کر سبوتاژ کرنے میں مصروف ہے اسمبلی کا اجلاس ہو تو اپوزیشن اراکین کے ایک ہی دبکے سے حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہوئے اراکین کو سانپ سونگ جاتا ہے اب تک کے ہونے والے تمام اجلاسوں میں سپیکر کی ایک نہیں چلی اور اپوزیشن چھائی رہی جبکہ بعض اوقات تو ایسا بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ پنجاب میں ابھی تک مسلم لیگ ن کی ہی حکومت چل رہی ہے رہی بات اداروں کی وہ ابھی تک اپنی سمت درست نہیں کرسکے کریں بھی تو کیسے خادم اعلی کی نوازشوں کے سائے تلے پروان چڑھنے والے آج بھی پی ٹی آئی کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں وہی افسران جو کبھی میاں شہباز شریف کے کار خاص ہوا کرتے تھے آج بھی اہم عہدوں پر تعینات ہیں جو محنتی اور قابل افسران میرٹ پر کام کرنا جانتے ہیں وہ اس وقت بھی خوار تھے اور اب بھی ہیں اور رہی سہی کسر پنجاب پولیس نے پوری کررکھی ہے جو مسلسل دیہاڑیا ں لگانے میں مصروف ہے عوام پہلے بھی ان سرکاری بدمعاشوں سے تنگ تھی سو اب بھی ہے اس وقت نئے پاکستان کے حوالے سے سب کی نظریں پنجاب اور بلخصوص لاہور پر ہیں اور لاہور میں ہی اس وقت پی ٹی آئی کی کمزور گرفت ہے۔

یہاں تھانہ کچہری کا نظام بدل سکا نہ ہی پولیس کے نظام میں کوئی تبدیلی آئی آئے روز پولیس کے حوالہ سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اوربعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے موجودہ حکومت کے آتے ہی تمام ادارے بے لگام ہوگئے خاص کر پولیس نے تو اپنی تمام کثریں نکالنا شروع کردی ہیں اس وقت باقی تمام صوبوں اور شہروں کو تو چھوڑ دیں صرف شہر اقتدار لاہورکو ہی دیکھ لیں جہاں وزیراعظم عمران خان کی ہر وقت نظریں لگی رہتی ہیں شریف النفس عثمان بزدار وزیراعلی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں انکے نیچے پوری کابینہ دن رات مصروف ہے آئی جی پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی تبادلوں اور معطلیوں میں مصروف ہیں مگر پولیس والے بدل سکے نہ ہی پولیس کا نظام بدلا جاسکا آج بھی لاہور میں جواریے اور بکیے راج کر رہے ہیں۔

منشیات گلی محلوں سے ہوتی ہوئے تعلیمی اداروں میں داخل ہوچکی ہے مظلوم ویسے ہی پس رہا ہے جیسے پہلے تھا پولیس مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے ظالم کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہے الیکشن سے پہلے تبدیلی کے جو نعرے لگائے گئے تھے انہی سے متاثر ہوکر عوام نے کپتان کو ووٹ دیے تھے کہ شائد عام انسان کی زندگی بھی تبدیل ہو جائے منافقت کی سیاست سے جان چھوٹ جائے اور انصاف کی دستک انکی دہلیز تک بھی پہنچ جائے مگر گذرنے والے سو دنوں میں کچھ بھی تو تبدیل نہیں ہوا سوائے چہروں کے باقی تو سب ویسے ہی چل رہا ہے جیسے پہلے تھا ہاں ایک فرق ضرور پڑا کہ پولیس افسران میں جو ڈر اور خوف تھا وہ ختم ہوچکا ہے ہمارے تھانے روز بک رہے ہیں انسانوں کی بولیاں لگائی جاتی ہیں بے گناہوں کو پکڑا جاتا ہے مک مکا کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

گناہ گاروں کے اڈوں کی پولیس سرپرست بن چکی ہے یہ لاہور کے قصے ہیں جناب اور ان شہروں کا کیا حال ہو گا جو لاہور سے سینکڑو میل دور ہیں اور جہاں سب ادارے ہی آزاد اور ہر بااثر شخص اپنا ہی قانون رکھتا ہے وہاں کے مظلوموں کا کیا حال ہوگا کیونکہ شہر اقتدار کے باسی ابھی تک تو انصاف کی آواز سے ہی محروم ہیں اعلان کب ہوگا اور پھر اس پر عملدرآمد کب ہو گا کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ غریب کو کب انصاف کی ٹھڈی ہوا کا جھونکہ میسر آئے ابھی تک تو لاہور والے ہی انصاف کو ترس رہے ہیں تھانہ کاہنہ کی رہائشی صائمہ بی بی ،تھانہ سبزہ زار کا رہائشی اعجاز عرف ججی انصاف کے حصول کے لیے دربدر ہیں پولیس تھانہ کاہنہ نے صائمہ بی بی کے ساتھ زیادتی کا مقدمہ کچھ دن انتظار کرنے کے بعد اپنی مرضی سے درج کرلیا مگر ملزمان کو ابھی تک تحفظ فراہم کیا جارہا ہے دوسری طرف تھانہ سبزہ زار کے علاقہ کا رہائشی اعجاز عرف ججی ابھی تک مقدمہ کے اندراج کے لیے کوشاں ہے دو ہفتوں سے زائد ہونے کے باوجود پولیس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی باقی پنجاب کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے جہاں غریب اور مظلوم کو حصول انصاف کے لیے دربدر کی خاک چھاننا پڑے کپتان کی ذمہ داری ہے کہ جو بھی ظلم کی دیوار انصاف کی راہ میں حائل ہو اسے بھی فورا گرا دیں ورنہ سابق حکمرانوں کے دعوے تو کپتان سے بھی بلند وبانگ تھے۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200