تحریر : شیخ توصیف حسین آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی کسی سیاسی یا پھر غیر سیاسی پارٹی کو حکومت پاکستان کی دیرینہ اور عظیم روایات کی پاسبانی کرتے ہوئے فارغ کر دی جاتی ہے یا پھر کوئی اہم شخصیت با امر مجبوری اقتدار کی کرسی چھوڑتی ہے تو 1947سے لیکر آج تک کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ ہر آنے والی پارٹی جانے والی پارٹی پر مقدمات کی بھر مار کر دیتی ہے جس میں کچھ تو جانے والی پارٹی کے کالے کرتوت ہوتے ہیں اور کچھ آنے والی پارٹی کا بغض اور کینہ ہو تا ہے تا کہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ جانے والی پارٹی کا منہ کتنا کالا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ ہماری پارٹی کتنی پارسا ہے۔
وطن عزیز میں یہ قصہ روز اول سے جاری ہے اور امید کامل ہے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا کیونکہ آنے والی پارٹی کی نظر میں نہ تو دوسری پارٹی کی عزت و تکریم ہو تی ہے اور نہ ہی تحمل مزاجی اور نہ ہی بر د بادی بس اسی لیئے وہ جا نے والی پارٹی کے خلاف کوئی کسر نہیں چھوڑتی کیونکہ جب یہ پارٹی کے لوگ اقتدار کی کرسی پر ہوتے ہیں تو ان کا اور مزاج ہوتا ہے اور جب کرسی سے اترتے ہیں تو ان کی دوسری چال ہوتی ہے اور جب یہ حکومت سے ٹکر لیتے ہیں تو پھر ان کا بُرا حال ہوتا ہے۔
خیر جب یہ بند سلاسل ہو تے ہیں تو پھر انھیں خیال آتا ہے جیل ریفارمز کا نیز قیدیوں کی حالت زار کا اور سب سے بڑھ کر عدلیہ کی آ زادی کا پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ عدلیہ کی آ زادی کے یہ مفاد پرست سیاست دان نعرے تو لگاتے ہیں لیکن عدلیہ کو وہ آزادی نہیں دے سکے جو اُسے ملنی چاہیے جس سے مظلوم افراد عدل و انصاف حاصل کر سکیں یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وطن عزیز میں ان مفاد پر ست سیاست دانوں نے جتنے بھی فیصلے کیے ان میں زیادہ تر فیصلے ماضی کی سیاسی رفاقتوں کی جھلک نظر آتی ہے ایسا اس لیے ہے کہ پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے دور اقتدار میں یہ کوشش کرتی آ رہی ہے کہ ان کے ذاتی وفادار عدلیہ میں فٹ ہو جائے تاکہ ان کے بُرے وقت میں ان کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈال سکے لیکن ان تمام کاوشوں کے باوجود عدلیہ ان کے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کر دیتی ہے جس کے نتیجہ میں متعدد بار ان مفاد پرست سیاست دانوں نے عدلیہ پر حملے کیئے ہیں کاش یہ مفاد پرست سیاست دان اقتدار کی کرسی سے اترنے سے قبل اپنے فرائض و منصبی صداقت امانت اور شرافت کا پیکر بن کر ادا کریں تو انھیں آ زاد عدلیہ کا رونا نہ رونا پڑے لہذا وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ جہاں دستور میں سینکڑوں تبدیلیاں کی گئی ہیں درج ذیل مذید کر دی جائیں تو وطن عزیز بالخصوص مظلوم افراد کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔
Power
ویسے تو نئے ججوں کا انتخاب عزت مآ ب چیف جسٹس صاحبان کی سفارش پر ہوتا ہے لیکن حتمی منظوری وزیر اعظم کی سفارش پر صدر پاکستان کرتے ہیں لہذا وطن عزیز کی تمام اسمبلیوں کے سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ آ زاد عدلیہ کی بحالی کیلئے یہ فیصلہ صوبوں کے تمام چیف جسٹس صاحبان و سپریم کورٹ کے ججز صاحبان پر چھوڑ دیں کہ جس قابل شخصیت کا انتخاب کریں وہ حتمی سمجھا جائے تاکہ نہ یہ کیس صدر کو جائے اور نہ وزیر اعظم کو علاوہ ازیں دوسری طرف ایسا ہی آ ئینی تحفظ انتظامیہ کو بھی دیا جائے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس اُن کو لگایا جائے جن کا ماضی سیاسی و مذہبی وا بستگیوں سے پاک ہو انھیں بھی آ ئینی تحفظ فراہم کیا جائے کہ وہ ایک دفعہ کے تقرر کے بعد مقررہ مدت سے پہلے تبدیل نہ کیے جائیں تاکہ وہ اپنے فرائض و منصبی آ زادی سے ادا کر سکیں اور اپنے ماتحت عملہ کے کالے کرتوتوں کا احتساب بغیر کسی سفارش اور دبائو سے کر سکیں جس سے نہ صرف وطن عزیز میں امن و امان قائم ہو گا بلکہ قانون کی مکمل پاسداری ہو گی لیکن افسوس صد افسوس کہ وطن عزیز کے مفاد پرست سیاست دان ایسا کر نے میں ہمیشہ قاصر رہے گے چونکہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو انھیں یہ کامل یقین ہے کہ اُن کے کالے کرتوت بے نقاب ہو جائے گے لہذا وہ ایسا سوچنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں چونکہ یہ وہ ناسور ہیں جو سیاست ملک و قوم کیلئے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کیلئے کرتے ہیں اگر ان کی حقیقت کو دیکھنا ہو تو انھیں اسمبلیوں میں لڑتے جھگڑتے اور غلیظ گالیاں دیتے ہوئے دیکھے ان کی حقیقت اصلیت اور اوقات آپ کو نظر آ جائے گی۔
درحقیقت تو یہ ہے کہ ان ناسوروں کی لوٹ کھسوٹ کے نتیجہ میں آج وطن عزیز بھکاری ملکوں کی صف میں آ کھڑا ہوا ہے جبکہ اس ملک کا بچہ بچہ مقروض بن کر رہ گیا ہے اگر حقیقت کے آ ئینے میں دیکھا جائے تو یہ وہ ناسور ہیں جن کے اربوں روپے غیر ملکی بنکوں میں پڑے ہیں اس کے باوجود یہ اپنے کروڑوں روپے کے قرضے اپنے حکومتی عہدہ داروں کو بلیک میل کر کے معاف کروا لیتے ہیں درحقیقت تو یہ ہے کہ ان کے سامنے قانون مکڑی کا وہ جالہ ہے جس میں کیڑے مکوڑے تو پھنس جاتے ہیں لیکن یہ اُسے پھاڑ کر نکل جاتے ہیں یقینا یہ وہ ناسور ہیں جہنوں نے قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے جس کے سامنے یہ ناسور لا قانو نیت کا ننگا رقص کر کے نہ صرف ملک و قوم بلکہ انسانیت کی تذلیل کر رہے ہیں جن کے اس گھنائونے اقدام کو دیکھ کر نہ صرف ملک و قوم کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف اور بالخصوص انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جا تا ہے آج اگر مو جو دہ حکو مت اور عوام کے در میان جو نفرت کی دیوار کھڑی ہو رہی ہے تو وہ بس انہی مفاد پر ست سیاست دانوں کے کالے کرتوتوں کا نتیجہ ہے چونکہ یہ وہ ناسور ہیں جو اپنے اپنے اضلاع کے تعمیراتی فنڈز از خود ہڑپ کر نے کے ساتھ ساتھ اُن پٹواریوں اور پولیس افسران کو اپنے اپنے اضلاع میں ترجیح دیتے ہیں جن کی رہنمائی میں سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ کر لیتے ہیں یہی کافی نہیں اگر آپ ان کے منظور نظر اہلکاروں کو دیکھے تو وہ بھی اپنے ان آقائوں کے نقش قدم پر چل کر ظلم و ستم لو ٹ مار اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کر نے میں مصروف عمل ہیں۔
یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا ہوا یوں کہ میں گزشتہ روز اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران ایک نوجوان روتا ہوا میرے دفتر میں داخل ہوا جس نے بتایا کہ میں عرصہ پانچ سال سے بلدیہ جھنگ کی ڈسپوزل پر اپنے فرائض و منصبی ادا کر کے اپنے اہلخا نہ کی کفالت کر رہا تھا کہ اسی دوران بلدیہ جھنگ کا ہیڈ کلرک شیخ امتیاز جو کہ اپنے آپ کو چیر مین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم اور ایم این اے جھنگ شیخ محمد اکرم کا قریبی عزیز بتاتا ہے اور جس کی میٹرک کی سند کے متعلق شنید ہے کہ وہ جعلی ہے اور جس نے لوٹ کھسوٹ کر کے اپنے پانچ بچوں کو کروڑوں روپوں کی لاگت سے انجینئر و ایم ایم بی ایس کی ڈگریاں دلوائی ہیں نے مجھ سے حسب عادت نذرانہ مانگا انکاری پر اُس نے یہ کہہ کر نوکری سے نکال دیا کہ ایم این اے جھنگ شیخ محمد اکرم نے مجھے حکم دیا کہ چونکہ تو ہماری مخالف جماعت کا اہلکار ہے اس لیئے تمھیں فوری طور پر نکال رہا ہوں یہ سننے کے بعد میں سوچوں کے سمندر میں ڈوب کر یہ سوچنے لگ گیا کہ ایم این اے جھنگ شیخ محمد اکرم ایسا گھنائو نا اقدام کر ہی نہیں سکتے یہ تو بس مذکورہ ہیڈ کلرک کی از خود کالی کرتوتوں کا نتیجہ ہے چونکہ مذکورہ ہیڈ کلرک ایسے گھنائو نے اقدامات محض حرام کی کمائی کیلئے کرتا رہتا ہے جس سے مذکورہ ہیڈ کلر ک کو تو مالی فائدہ ہو تا ہے لیکن شیخ وقاص گروپ اور عوام میں ایک نفرت کی دیوار کھڑی ہو رہی ہے۔