تحریر : مزمل احمد فیروزی دیواروں کو ہمیشہ ہی دوری، روکاوٹ اور تقسیم کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن حال ہی میں دیوار مہربانی نام کی ایک روایت شکن تحریک شروع ہو ئی ہے جو کہ دیوار کی بنیادی تاریخی علامت کے بالکل بر عکس کا م کر رہی ہے ،اس تحریک کا آغا ز ایران کے شہر مشہد سے ہوا جس کا آغاز برفباری کے دنوں میں ہوا برفباری کی تصاویر دیکھنا اور برفباری دیکھنے کیلئے پیسے خرچ کر کے جانا ایک الگ معاملہ ہے مگر یہ ہی برف باری بے گھر افراد کے لئے کافی مشکل کا سبب ہو جایا کر تی ہے اور ایسے ہی برف باری میں گھرے بے گھر لوگوں کی مدد کیلئے دیوار مہر بان وجود میں آئیجب ایک گمنام ایرانی شہری نے سخت سردی کے مارے غرباء اور بے گھر افراد کی مد د کے لئے ایک خیر اتی تحریک کا آغا ز “دیوار مہر بانی” بنا کر کیا جس پر لٹکا نی والی کیلیں آویزاں کی اور لکھا کہ ”اگر آپ کو ضرورت ہے تو ان کپڑوں میں سے ایک لے جائیے۔
اگر ضرورت نہیں ہے تو ایک چھوڑ جایئے ” ایران کے شہر مشہدسے غر باء تک گرم کپڑے پہچا نے کے لئے شروع ہو نے والی یہ تحریک اب عالمی تحریک اب بن گئی ہے جو ایک محبت باٹنے کا طریقہ ہے دیوار مہر بان نے زبان کی رکا وٹوں کو ہٹا کر انسا نیت کو بر قرار رکھنے کا ایک ذریعہ قائم کیا ہے جہا ں یہ نہیں دیکھا جاتا ہے ضرورت مند کو ن سی زبان بولتا ہے یا کو ن سے مذہب سے تعلق رکھتا ہے دیوار مہر بان کا مقصد صرف ضرورت مند افراد کی مد کر نا ہے ، لو گوں کی دلچسپی اورحوصلہ افزائی نے ثابت کر دیا ہے کہ دیوار مہربانی ضرورت مندوں کی مد د کر نے کے لئے ایک منفرد پلیٹ فارم جہاں کو ئی بھی باآسانی کسی کی بھی سفید پوش مدد کر سکتا ہے۔
یہ تحریک مشہد سے تہران اور پھر چین سے ہوتی ہوئی پا کستان پہنچ گئی ، ہما رے ملک میں دیوار مہر بانی کا آغاز تو چند ماہ پہلے کراچی کے چند لوگوں نے کیا لیکن یہ یہاں زیادہ مقبول نہ ہو سکا مگر یہ دیگر شہروں میں فروغ پا رہا ہے کوئٹہ ، پشاور،لاہور اورفیصل آباد کے بعد راولپنڈی میں بھی دیوار مہر بان کو خوش آمدید کہا گیا۔ دیوار مہربان پر روزمرہ استعمال کے جیسے کپڑے ،جو تے ،شال جیکٹس ،سویٹر وغیرہ اور مختلف گھر یلوں اشیا ء کو لا کر یہاں رکھ دیتے ہیں اور پھر سفید پوش لوگ بنا مانگے اپنی ضرورت کی اشیاء یہاں سے لیجاتے ہیں اس طرح ضرروت مندوں کی ضرو رت مانگے بغیر پو ری ہو نے لگی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اس مہم میں دلچسپی لے رہے ہیں اور اپنے اداروں کے پاس دیوار مہر بانی کووجود میں لا رہے ہیں جس کی مدد سے کئی حا جت مند کسی کے آگے ہاتھ پھلا ئے بغیر اپنی ضروریات پو ری کر سکیں گے جس سے انہیں نہ توشرمندگی کا سا منا کر نا پڑے گا اور نہ ہی ان کی عزت نفس مجروح ہو گی۔
Wall of Kindness
ایسے منصوبوں کی کا میابی کے لئے مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ عام شہروں کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا اس طرح کی سر گر میوں میں نوجوانوں کو بطوررضا کار اپنے آپ کو پیش کرنا ہو گا اوراس مہم میں مصور ،فنکار، گلوگاراور فوٹوگرافروں کورضا کارانہ آگے آنا ہوگا جیسا کہ مصوروں کی لکھی ہوئی تحاریر اور تصاویر ضرورت مندوں اور دوسرے صاحب حیثیت لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور اس نیک مشن کی حمایت کا بہانہ بنتی ہے سول سو سا ئٹی اور میڈیا کی جا نب سے دیوارمہر بانی پر خصوصی نظر نے اس مہم کو ایک تحریک میں بدل دیاہے اور اس تحریک کے بڑی تعداد میں حامی پیدا کر دیئے ہیں اس طر ح کی سرگر میوں کو تما م مکا تب فکر کے لوگوں کو خوش آمدید کہنا چا ہئے اور اس طرح کے بے لوث کام کر نے والوں کی حوصلہ افزائی کی اشد ضرورت ہے اور مخیر حضرات کو اسطرح مدد کرنا چاہیئے کہ غریب اور مفلس افراد کی ضروریات با عزت طر یقے سے پو ری ہو سکیں۔ چوک ،چوراہوں اور دیگر مقامات پر بھکاری بھیک مانگتے ہوئے تو اکثر دیکھا ئی دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سفید پوشی کا بھرم رکھ کر اپنے حالات سے جنگ لڑتے ہوئے بھوکا پیاسا اور بیمار یوں مبتلا ہو کر اکثر اوقات جان تو گنوادیتا ہے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا تا۔
ایسے ہی ضرورت مند وں کو مد نظر رکھتے ہو ئے کراچی والوں نے اس عالمی تحریک کو دوبارہ اپناتے ہوئے چار مقامات پر دیواروں کو مختلف رنگوں سے پینٹ کر کے اسے ”دیوارمہر بانی ”کا نام دیا ہے ان پر استعمال شدہ کپڑے لٹکا دیے ہیں ،جوتے اور کھلونے بھی رکھے گئے تاکہ کو ئی بھی ضرورت مند کسی کے آگے ہاتھ پھیلا ئے بغیر کپڑے اور دیگر اشیاء بلا معاوضہ لے سکے ۔اس دیوار مہربانی سے ضرورت کی اشیاء حاصل کرنے والوں کے چہروں پر خوشی دیدنی ہوتی ہے اس دیوار مہربانی سے استعفادہ کرنے والوں کے چہرے کی چمک کا اندازہ وہاں پر موجود لوگ ہی بتا سکتے ہیں مگر اس سے زیادہ پر جوش اور مطمئن وہ لوگ نظر آتے ہیں جو وہاں اپنی اشیاء ان سفید پوش لوگوں کیلئے چھوڑ کر جاتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں اس وقت ہوا جب ہمارے فیس بک کے دوست نے ہم سے دیوار مہر بانی پر موجود لوگوں کی خوشی اور مسرت کاآنکھوں دیکھا حال ہمیں سنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ میلے کچیلے کپڑوں ملبوس ننگے پیر آنے والی سات سالہ بچی اپنے لئے ایک خوبصورت سوٹ اور کھلونا حاصل کر کے جس طرح خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھی اسے الفاظ میں بیان کرنا انتہا ہی مشکل ہے ،ایسے ہی جذبات کا انداز ہ ایک 65سالہ بزرگ کی آنکھوں میں خوشی سے آنیوالے آنسوں سے بخوبی لگایا جاسکتا تھا جو اپنے لئے سردی کے اس موسم میں لیدرکوٹ ملنے سے کر رہا تھا ایک بزرگ خاتون تو ہاتھ اٹھا ئے دعا ئیں دیتے نہیں تھکتی تھی ۔اسی طرح سوشل میڈیا پر بہت چرچا میں رہنے والی دیوار مہربان اگر اسی طرح قائم و دائم رہے اور لوگوں اس سے فائدہ اٹھاتے رہے تو کیا ہی بات ہے اور ہم دیوار مہربانی کی تعداد میں اضافہ کرتے جائے تاکہ سفید پوش لوگوں کو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔