تحریر : نجیم شاہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشاور شہر کے رہائشی سب سے زیادہ متاثر ہوئے جو آئے دن بم دھماکوںاور پُرتشدد واقعات سے دوچار رہتے ہیں، تاہم اب اِس شہر کی گلیوں میں چوہوں کا بھی راج ہو چکا ہے۔ پشاور پر بڑے بڑے بلی نما چوہوں کی یلغار سے کئی بچوں کو کاٹنے کے واقعات سامنے آئے تو معاملہ نہ صرف صوبائی اسمبلی تک پہنچا بلکہ پشاور ہائی کورٹ میں بھی اس کی بازگشت سنائی دی۔ چوہوں کی کارروائیوں سے پریشان ضلعی انتظامیہ نے بالآخر چوہوں کو بھی اشتہاری، دہشت گردوں، انتہا پسندوں اور جرائم پیشہ عناصر کی صف میں لاکھڑا کر دیا ہے اور اِنہیں بھی انتہائی مطلوب مجرم تصور کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر اِن کے سر کی قیمت مقرر کر دی ہے۔
ایک طرف عسکری افواج نے خیبر پختونخواہ سمیت پورے ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کیلئے کامیاب آپریشن شروع کر رکھا ہے تو دوسری جانب اب پشاور کی سول انتظامیہ نے دہشت گرد چوہوں کا صفایا کرنے کی ٹھان لی ہے۔ اس فیصلے کے بعد اہم چیلنج یہ درپیش آیا کہ چوہے بڑے تیز اور چالاک ہیں اور آسانی سے قابو نہیں آتے لہٰذا اِن سے نمٹنے کیلئے انتظامیہ نے کافی سوچ بچار کے بعد عام لوگوں کو مہم میں شامل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو شہری مردہ چوہے کی لاش لائے گا وہ نقد انعام پائے گا۔
دہشت گرد اشتہاری چوہوں کے خلاف آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے شہر میں ایسے مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جہاں مردہ چوہے جمع کرانے والے شہری کو نہ صرف انعام سے نوازا جا سکے گا بلکہ اِن مراکز پر چوہے مار دوائی بھی مفت مل سکے گی۔ ضلعی حکومت نے چوہے مار مہم کا اعلان کرتے وقت فی چوہے کی ٹارگٹ کلنگ پر پچیس روپے کا انعام مقرر کیا تھا۔
100 Pakistani Rupees
تاہم اگلے ہی روز کینٹ انتظامیہ نے چوہے کے سر کی قیمت میں اضافہ کر کے فی چوہا مارنے والے کو تین سو روپے بطور انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ پشاور کی ضلعی حکومت کی طرف سے چوہے مار مہم کے لیے اعلان کیا گیا پیکیج تو بڑا ہی شاندار لگتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکومت اِن چوہوں کی ٹارگٹ کلنگ کے لئے بلیوں کو پُرکشش نوکری کی آفر دیتی۔ اگر رومانیہ میں بلی کو ملازمت دی جا سکتی ہے برطانوی حکومت پارلیمنٹ کے مرکز ویسٹ منسٹر پیلس میں چوہوں کی دہشت کو ختم کرنے کے لیے بہترین صلاحیتوں کی مالک بلیوں کو پارلیمنٹ میں تعینات کر سکتی ہے تو پھر پشاور کی ضلعی انتظامیہ کو بھی اِس بارے سوچنا چاہئے تھا۔
اب چونکہ عام لوگوں کو چوہے مار مہم میں شامل کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا گیا ہے، اس لیے انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ چوہوں کے خلاف آپریشن سے پہلے ایک ٹیم ایسی تشکیل دے جو یہ نشاندہی کرے کہ کون کون سے چوہے پشاور کی ضلعی انتظامیہ کو مطلوب ہیں یا پھر اشتہاری چوہوں پر ”پشاوری چوہے” ہونے کا لیبل چسپاں کیا جائے۔
ورنہ حکومت نے فی چوہا تین سو روپے کی جو پُرکشش آفر دی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسرے اضلاع اور شہروں کے چوہے بھی پشاور آ کر بِکنا شروع ہو جائیں اوربیرون شہروں سے پشاور میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی چیکنگ کے دوران مسافروں کے سامان سے کچھ اور ملے نہ ملے کم از کم چوہے ضرور برآمد ہوں گے۔