تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری واپڈائی سفید ہاتھی سرکاری بنک کے لیے بڑا عذاب بن چکے ہیںاگر ان کی افسر شاہی کو دیکھیںایس ڈی اوز سے لیکر واپڈا ہائوس کے تمام بڑے افسران نے دوران ملازمت ہی محل نما کوٹھیاں بڑے شہروں کے پو ش اور مہنگے ترین علاقو ں میں تعمیر کر رکھی ہیںکالا باغ ڈیم بنائو جیسی سکیمیں بنا بنا کرکروڑوں اربوں روپے ڈکار چکے ہیں اور کوئی پو چھنے والا تک نہ ہے۔ مرکز کی اپوزیشنی جماعت کے اصل لیڈر مسٹر زرداری کبھی کبھاراور عمران خان اکثر نواز شریف کے شہزادگان کی پانامہ لیکس پر تو بیان بازی کرتے رہتے ہیں مگر جو ہمیں “روشنیاں “عطا کرنے والے جو کہ دراصل اندھیروں کے سوداگر اور کھلم کھلا وارداتیے ہیںادھر تو کبھی ان کی توجہ جاتی ہی نہیںاور حکمران خود تو کیوں ایکشن لیں گے کہ انھیں وزارتوں تک پہنچنے والے حصہ بقدر جسہ میں سے بکروں کی قربانی کے دنوں کی طرح دونوں ٹانگیں دوست احباب والے قربانی کے حصے کی طرح بطور نذرانہ پہنچ ہی جاتی ہیںجس سے پانامہ لیکس کا کاروبار دن دو گنی رات چوگنی ترقی بھی کرتا چلا جارہا ہے زرداری صاحب تو کیونکر بولیں گے کہ “چھاج تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں لاکھوں چھید”اگر یہ پنڈورا باکس کسی کی بے وقوفی غلطی یا دبائو سے کھل بھی گیا تو پچاس فیصد سے زائد انھی کے لیڈران پکڑمیں آجائیں گے اور خواہ مخواہ”بے عزتی”مزیدخراب ہوگی۔
کسی نے خوب کہا ہے کہ “مجھاں مجھاں دیاں بہناں”یعنی بھینسیں بھینسوں کی ہی بہن ہوتی ہیںاس لیے مرکز اور سندھ کی دو نوں پارٹیاں من ترا ملاں بگوئم تو مرا حاجی بگو”کی طرح چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں اور کتنا ہی احتجاج ہوتا رہے ان کی بولتی (زبان) بندہی ہو چکی ہے اور عمرانی اے ٹی ایم کارڈز اور نو دولتیے سود خور سرمایہ دار بھی صُمم بکمم کی کیفیت اختیار کیے ہوئے ہیںکہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیںواپڈائی سفید ہاتھی نما افسران کا بجلی تیار کرنے اسے دور دراز چکوک گوٹھوں تک پہنچانے ماہانہ بجلی کے بل بنانے اور اسے وصول کروانے،بجلی کی خرابی پر اسے مرمت کروانے جیسے عملوں میں ذرا برابر بھی حصہ نہیں ہوتا وہ تو صرف مفت بجلی والے ائیر کنڈیشنڈ دفتروں اور گھروں میں گپ شپ کبھی کبھار فائلوں کی ورق گردانی اور باقی وقت آرام فرماتے ہیں یا پھر حکومت کوئی بڑی سکیم نکالے تو اس میں سے وہ اپنا بڑا حصہ خورد برد کرنا اچھی طرح جانتے ہیں۔
اگر ان تمام سفیدہاتھیوں کو بمعہ ان کی عرصہ دراز کی نام نہادعوامی خدمت کرنے کے بعد ملازمتوں سے بر خواست کرڈالا جائے تو خوشیوں اور بینڈ باجوں والے جلوس عمرانی جلوسوں کو بھی مات کرڈ الیں گے اور نواز شہباز کی بھی ذرا جان خلاصی ہوجائے گی۔ ہاں یہ نہ بھولیے کہ ان کو صرف ملازمتوں سے بر خواست کرنے سے شاید ان کا پیٹ نہ بھرے انھیں ذراشہروں کے بڑے چوکوں پران کی لوڈ شیڈنگ جیسی خصوصی نوازشوں سے سوکھ جانے والے درختوں سے بنائے گئے کوڑے بھی ضرور مہربانی فرما کر “نوازے”جائیں۔تاکہ جننے والی ماںکا ذکر “ہائے اماں ہائے اماں” ضرور کرسکیں اس طرح سے آئندہ کوئی بھی افسر زبردتی لوڈ شیڈنگ والا ڈرامہ نہ دھرا سکے گا۔اگر یہ نہ کرنا ہو تو پھر بجلی ناپید ہو جانے پر پانی کی شدید کمی برداشت کرنے والے جانوروں کی کھال کا اچھا سا خوبصورت ” آجا میرے بالما تیرا نتظار ہے “جو کہ تھانوں میں خصوصی طور پر” آرا م “فرما رہا ہوتا ہے۔اس سے تواضع فرمانا نہ بھولئے گا۔
Load Shedding
ادھر یہ خبر بھی بلکہ بریکنگ نیوز کسی کو معلوم ہی نہیں ہو سکی( بجلی بند تھی) کہ لوڈ شیڈنگ چمپئن شپ ضلع بہاولنگر نے جیت لی ہے وہاں بجلی کے افسران نے” خصوصی کارگردگی” کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوقسطوں میں مسلسل چار دن تک 21گھنٹے لوڈ شیڈنگ کرکے ملک بھر کے دیگر اضلاع کے ریکارڈز کو مات کرڈالا ہے اس پر طرا یہ کہ ان واپڈائی ضلعی افسران نے اوپر والوں کو اس کی اطلاع تک بھی نہیں پہنچائی اور عوام تو بہاولنگر ضلع کے خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیںکہ انہوں نے قطعاً اس خصوصی مہربانی پر نہ تو چیخ و پکار کی ہے اور نہ ہی کسی قسم کا احتجاج اور سے”خدائی نعمت”سمجھ کر قبول کر لیا ہے کہ اب بل تو کم آئے گا چلو بچت کسی طرح تو ہوئی۔بہاولنگری ان افسران کو جب ان کی ہنگامی مہربانیوںپربرخواست کیا جائے تو خصوصی حجاموں کاانتظام حکومت ضرور کرے جو ان کے سر پر استرے پھیر دیں تاکہ عوام چوکوں پر لٹکتے ہوئے ان مہربانوں پر جوتوں کے نشانے تاک تاک کر اورصحیح صحیح لگا سکیں اور ڈھول کی تھاپ پر رقص و سرور کی محفل بھی وہیںلوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اندھیروں میں ہی بپا ہو سکے۔
اس طرح دوسرے نمبر پر ضلع تھر پار کراور تیسرے نمبر پر ضلع بدین آئے ہیں۔وہاں پر بھی خصوصی تقاریب کا انعقاد ضروری ہے۔ کہا یو نہی نہیں جاتا کہ”گو نگے نوں نہ مارو گونگے دی ماں نوں مارو جھیڑی گونگے جمندی اے”اس لیے جو حکمران ان واپڈائی افسروں کی سرپرستی فرماتے اور ان سے مال بٹورتے ہیںانھیں بھی خود پیدا کردہ لوڈ شیڈنگ کے تسلسل پر خصوصی”اعزازات ” سے نوازنا ضروری ہے کہ انہوں نے فرمایاتھاکہ چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہیںاب نام تبدیل کرناتو بہت ہی بری بات ہوئی نا!انھیں صرف ان بجلی کی خصوصی کرسیوں پرجو کہ بیرون ممالک”آرام دہ پھانسیوں اور جان لینے “کے لیے استعمال کی جاتی ہیں جن میں مسلسل بجلی کی رو بہہتی رہتی ہے ان پر بٹھایا جائے تو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے وقفہ وقفہ سے خود بخود پیار پیار سے جھٹکے لگیں گے۔
اس طرح انھیں مزا بھی چوکھا آئے گااور خدا کی یاد بھی جس نے کہا کہ میں خود جھوٹوں پر لعنت فرماتا ہوںکہ اس سے کم تر پر اب بھپری ہوئی عوام راضی ہونے کو تیار قطعاً نہ ہے جھوٹ بولنے جھوٹے وعدے کرنے والوں کی اور کیا سزاہوسکتی ہے؟ آئین کی دفعہ 62,63یہاں مکمل لاگو ہو کر انھیں نا اہل قرار دیتی ہے مگر سارے ہی زر خرید غلام اور تابعدار ہیں اس لئے کون اور کیسے عمل در آمد کرے؟اس کے علاوہ کوئی اچھا خصوصی احسن حل ان واپڈائی اور حکمران “مہربانوں ” کے لیے ہو تو راقم کو ضرور drahsanbari@gmail.comپر ای میل کریں یا پھر فون نمبر0300-6986900پر فون کرکے اطلاع فرمادیں تعمیل ارشاد و حکم ہو گا انشاء اللہ۔