واپڈا میں بددیانتی، چور بازاری، اقربا پروری، لوٹ مار اور اسکی تباہی و بربادی پر میرا یہ دوسرا کالم ہے مگر اب واپڈا ہی نہیں پاکستان میں کرپشن کا معیار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ ہر سرکاری ادارہ اور وہاں کے ملازمین اس کیچڑ میں لت پت ہیں کہیں سے کوئی خوشی کی خبر نہیں آرہی اور ان ملک دشمن چوروں اور لٹیروں کے خلاف لکھتے لکھتے اب خود کو بھی شرمندگی سی محسوس ہو رہی ہوتی ہے کہ جتنا مرضی لکھتے چلے رہوا س پر ایکشن تو کوئی ہونا نہیں جبکہ بعض اوقات یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے شائد سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی لوٹ مار کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں پتا نہیں وہ مخلص اور محب وطن لوگ کہاں چلے گئے جن کی وجہ سے پاکستان کا وجود قائم ہے۔
میں واپڈا کے غازی بروتھا پاور کمپلیکس اٹک کے پاور ہائوس کی کہانی اس امید پر کہ خدارا اس ملک کو ڈوبنے سے بچا لیں ایک بار پھر تفصیل سے جناب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان، چیئرمین نیب، وفاقی محتسب اور اپنے پڑھنے والوں کے گوش گذار کر کرنا چاہتا ہوں کہ شائد ترے دل میں اتر جائے میری بات۔ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں آپ کو باور کروادوں کہ پاور ہائوس کے یونٹس پانی کے کس لیول تک کام کرسکتے ہیں انہیں کون چلاتا اور بند کرتا ہے اس پاور ہائوس کے یونٹس عام طور پر 2 جگہوں سے چلائے اور بند کیئے جاتے ہیں پہلے نمبر پر مین کنٹرول سے اور دوسرے نمبر پر ULCP(Unit Local Control Penal) سے اگر یونٹ کا سلیکٹر سوئچ ریموٹ پر ہو تو یہ M.C.Rسے چلیں گے اور اگر یہ سلیکٹر سوئچ D.C.S Local پر ہو تو یہ ULCP سے چلیں گے MCRسے یونٹ سپروائزری یا JEs چلاتے ہیں اور ULCPسے ٹربائن آپریٹر چلاتا ہے چونکہ اس پاور ہائوس میں Latest ٹیکنالوجی استعمال ہوئی ہے اس لیے ماسوائے آواز کے باقی ہر چیز Events پرنٹر میں یونٹ کے ہر قسم کے Behavior کے متعلق پرنٹ ہو رہی ہوتی ہے یہ واقع 24 فروری 2013ء کو رات 11 بجکر 26 منٹ اور 43 سیکنڈ کا ہے۔
اس وقت یونٹ نمبر 1,3,4اپنی فل کپیسٹی یعنی ہر یونٹ 290 MW لوڈ پر چل رہے تھا اس طرح تینوں یونٹس کاٹوٹل لوڈ 850 میگا واٹ تھا اور ہر یونٹ کا سلیکٹر سوئچ ریموٹ پر تھا اس وقت Fore Bey کالیول 330.8 میٹرتھا اور یہ یونٹس329.5میٹر Fore Bey لیول تک 290 میگا واٹ لوڈ پر چل سکتے ہیں اس وقت سپروائزری اسفند یار اور جونیئر انجینئر امیر محمد M.C.R سے یونٹوں کو کنٹرول کررہے تھے کہ امیر محمد نے کمپیوٹر سے مشترکہ صفحہ نکالا اور تینوں یونٹوں کو بند کرنے کی کمانڈ دیدی یہ کام اسنے تقریبا چند سیکنڈ زمیں ہی مکمل کرلیا اس وقت ٹربائن آپریٹر جو کہ یونٹ نمبر 3 کے سامنے بیٹھا ہوتا ہے نے یونٹ کو بند ہوتے دیکھا تو اس نے فوری طور پر اسفند یار کو ٹیلی فون کرکے پوچھا کہ کیا سسٹم فیل ہو چکا ہے کیونکہ یونٹس بند ہونے سے چند سیکنڈ کے لیے اندھیرا ہوا تھا اسکے بعد 2 ڈیزل جنریٹر خود بخود چل پڑے تھے اس حوالہ سے بھی بتاتا چلوں کہ پاور ہائوس میں 2.5میگا واٹ کے 2 ڈیزل جنریٹر لگے ہوئے ہیں جو سسٹم فیل ہونے کی صورت میں خود بخود آن ہو جاتے ہیں جس پر اسفند یار نے جواب دیا کہ غلطی سے ہم سے تینوں یونٹس بند ہو گئے ہیں۔
Load Shedding
آپ جلدی سے یونٹ نمبر 2 کو Still Stand کر دیں جو رات 11 بجکر 12 منٹ پر NCC کے کہنے پر بند کیا گیا تھا تاکہ اسے ہم اسٹار دیں سکیں عام طور پر یہ یونٹس 20 سے 25 منٹ میں آٹو پر Still Stand ہوتے ہیں آپریٹر نے انکے کہنے پر عمل کیا اور یونٹ کو Still Stand کر دیا جسکے بعد اسفند یار نے مین کنٹرول روم سے یونٹ کو چلا دیا آپریٹر نے اسفند یار کو ٹیلی فون پر بتایا کہ سسٹم میں وولٹیج اور فریکوئنسی نہیں آرہی تو آپ یونٹ کو سسٹم سے کس طرح Synchronize کریں گے تو وہ خاموش ہو گیا اور یونٹ کافی دیر تک S.N.L پر چلتا رہا اور پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا ماسوائے تربیلا کی 3 یا4 مشینوں کے علاوہ سارا سسٹم فیل ہو گیا۔ سٹیم پاور اسٹیشن کو چلانے کے لیے 24 سے 48 گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے اور ہر سٹیم پاور اسٹیشن کو چلانے کے لیے کروڑوں روپے کی لاگت آتی ہے۔
اس وقت تو سارے ہی سٹیم پاور اسٹیشن بشمول ہائیڈل اور گیس ٹربائن پاور سٹیشن ٹرپ ہو چکے تھے تو اس طرح واپڈا کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں 7 دن تک بجلی بند رہی جسکے نقصان کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا جونیئر انجینئر امیر محمدکی اس معمولی سی غلطی کی بدولت حکومت کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اسکے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جسکی غلطی تھی انہیں سزا دی جاتی مگر یہاں پر ہر اعلی واپڈا افسران نے اس غلطی کو چھپانے کے لیے حکومت کو بیوقوف بنا کر غلط رپورٹ بھیج دی۔
اب زرا غازی بروتھا میں انکوائری کے نام پر شروع ہونے والے ڈرامہ کی تفصیل بھی واضح کرتا چلوں کی اس بریک ڈائون کے بعد سب سے پہلے تو غازی بروتھا کے چیف انجینئر فیروز دین نے الیکٹریکل P&I ,C&I کے ریذیڈنٹ انجینئر مظفر خان کو لوکل انکوائری کا حکم دیا جس پر RE نے ٹربائین آپریٹر، سپروائزری اور 3 جونیئر انجینئرز سے 3 دن کے اندر اندر رپورٹ طلب کر لی جبکہ آخری دن تمام افسران کو جنرل مینجر نے انکوائری کے سلسلہ میں اسلام آباد بلایا ہوا تھا اور وہاں پر ان افسران نے وہی رٹا رٹایا سبق دھرادیا کہ پانی کا لیول کم ہوگیا تھا جسکی وجہ یونٹس سے آوازیں آنا شروع ہوگئی تھی اور ہم نے NCCسے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر انکا نمبر مصروف جارہا تھا اور پھر ہم نے اپنا سسٹم بچانے کے لیے یونٹس بند کر دیے اور GM سے شاباش لیکر واپس آگئے یہاں پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ چیئرمین واپڈا، ممبر پاور اور جنرل مینجر چند دنوں کے مہمان تھے اور ریٹائرمنٹ کے قریب تھے حتی کہ حکومت بھی جانے والی تھی اس لیے اتنے بڑے سکینڈل پر مٹی پائو والا فارمولا فٹ کرتے ہوئے اس معاملہ کو نمٹا دیا گیا اور کوئی ٹیم بھی انکوائری کے لیے غازی بروتھا پاور ہائوس نہیں گئی اور اس طرح قوم کے اربوں روپے کا نقصان ہو گیا اور ذمہ داروں کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوسکی الٹا انہیں شاباش دیکر چھوڑ دیا گیا تا کہ وہ آئندہ مزید اچھے طریقے سے واپڈا کی تباہی کرسکیں جبکہ یہاں پر مزے کی بات یہ ہے کہ اس جھوٹ کو چھپانے کیلیئے چیف انجینئر نے ان 4یونٹس کی باری باری20,20 دن کی اوور ہالنگ NCCسے منظور کروائی۔
عملے نے دن رات خوب گپیں اور قوم کو بیوقوف بنا کر اوور ٹائم بنایا چونکہ عملے کو علم تھا کہ آوازیں وغیرہ تو آئی نہیں اس لیے انہوں نے فالتو میں یونٹس کوباری باری کھول دیاجسکے نتیجہ میں 10اگست 2013ء کو 107.5 MVA کے 4 نمبر یونٹ کا ٹرانسفارمر (Blue Phase) تیل میںپانی کی موجودگی کی وجہ سے Brust ہوگیاجس سے کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ 24 فروری کو جس وقت پورے ملک میں بجلی کا بریک ڈائون ہوا تو اس وقت مین کنٹرول روم میں ڈیوٹی پر اسفند یار سپروائزری۔ امیر محمد، عبدالروف اور لیاقت علی جونیئر انجینئر ز تھے۔ ULCP پر ٹربائن آپریٹر محمد رفیق، سب انجینئرز انور علی، شوکت جلال، شہزادہ تیمور، ریاض علی، حافط فاروق اورASAs فلک شیر، اشفاق علی۔ سوئچ یارڈ میں خادم حسین، اعجازحیدر۔ ٹیل ریگولیٹر پر مقصود اعوان سب انجینئر ،ASA غلام مجتبی اور ان ٹیک پر سب انجینئر اشفاق احمد تھے۔
اتنی لمبی چوڑی تفصیلات فراہم کرنے کے بعد بھی اگر کسی طرف سے اتنے بڑے اسکینڈل کی کوئی غیر جانبدار انکوائری نہیں ہوتی تو پھر ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا مقدر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں ہم جس شاخ ( میری مراد پاکستان ہے) پر بیٹھے ہوئے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں اسکے بعد تو نہ کسی سے کوئی گلہ بنتا ہے اور نہ ہی کوئی شکوہ جو جتنا بڑا ڈاکو، رسہ گیر، بدمعاش، قمار باز، تماش بین اور فراڈیا ہو گا وہ اتنی ہی ترقی کریگا ایماندار، فرض شناس، مخلص اور محنتی افراد اس ملک سے کہیں اور جابسیں اگر انہوں نے اپنی عزت، اپنی جان اور اپنی اولاد کو محفوظ مستقبل دینا ہے۔