واپڈہ خسارے میں کیوں نہ ہو

Wapda

Wapda

تحریر: مجید احمد جائی
یہ الوداع ہوتے دسمبر کی ایک صبح ہے۔ دُھند نے چہار سو اپنی چادر تان رکھی ہے۔ میں سردی کی ہوااور دُھند کی شرارتیں سہتا، ٹھٹھراتی صبح میں واپڈہ کے ضلعی دفتر پہنچا ہوں۔ وہاں میری آنکھوں نے جو مناظر دیکھے اور کانوں نے سرگوشیاں سنی۔ میں حیرت کی سمندر میں غوطہ زن ہوں۔ یہاں بھی چھوٹے بڑے سانپ موجود ہیں۔ انسانی شکلوں میں یہ سانپ اپنے ہی جیسوں کو ڈس رہے ہیں۔ اِن کا زہر معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے اور افراتفری، نفرتوں کا جو اژدھام ہے انہی کی وجہ سے ہے۔ہر چہرہ اِن کا ڈسا نظر آتا ہے۔

میں وہاں کھڑا سب تماشا دیکھ رہا ہوں ۔ہاں تماشا ہی تو ہو رہا ہے ۔آفسر ،آفیسر کو نواز رہا ہے اور کسٹمر کی بے بسی کلاُرہی ہے ۔چیخ رہی ہے اور تماشائی ،تماشا دیکھ رہا ہے۔قانون کی پاسداری دیکھنی ہے تو واپڈہ آفس کا دورہ فرما لیجئے۔دودھ کا دودھ ،اور پانی کا مینڈ ک صاف نظر آ جائے گا۔قانو ن سو رہا ہے ۔۔نہیں قانون دیکھ رہا ہے لیکن بیچارہ مجبور ہے ۔یہاں سب کچھ قانونی ہی ہو رہا ہے۔قانون کے حوالے دے دے کر ڈسا جا رہا ہے۔کرپشن کا میلہ سا لگا ہے اور سگریٹ کے مرغولے دفتر کی فضا کو آلودہ کرتے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں ۔جیسے یہ دفتر نہیں اپنے محل کی بیٹھک ہے ۔یاد دوست آ رہے ہیں ،مہمان داریاں چل رہی ہیں ۔سفارشیں دندناتی پھرتی ہیں۔

رشوت کا ٹولہ مٹھی گرم کر رہا ہے ۔سچ منہ چھپائے رو رہا ہے۔ہاں سچ کو آنسو بہانے ہی چاہیے۔سچ ہمیشہ کتابوں ،کہانیوں میں لکھنا ،پڑھنا اچھا لگتا ہے ۔ظاہری دُنیا اور زندگی کے معاملات میں اس کا بھلا کیا کام۔۔؟ یہاں آنے سے پہلے میں واپڈہ کے گن گاتا تھا۔کہیں بجلی چوری ہوتے دیکھتا تو کوشش کرتا کہ چور گرفتار کرواسکوں۔لیکن یہاں آ کر میں نے چوروں کی درس گاہ دریافت کر لی ۔یہاں چوروں کو سکھایا جاتا ہے ،بجلی کیسے چوری کرنی ہے۔سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصدق۔کرپشن نے اپنے پنجے گاڑھ دیئے ہیں ۔شاید رشوت کی کڑیا ں بھی اس کے ساتھ مل گئی ہیں ۔اور دونوں نے مل کر خود کو بڑا مضبوط کر لیا ہے۔بچپن میں سُنا کرتے تھے کہ پولیس سب سے زیادہ رشوت لیتی ہے اور کرپشن کی ماں اسے سمجھا جاتا ہے۔لیکن یہاں کرپشن کی نانی کی بھی نانی محفل سجائی بیٹھی ہے۔

ہم حکومت کو بُرا بھلا تو صبح شام ،ہر پل ،ہر لمحہ کہتے ہی رہتے ہیں لیکن کبھی یہ کہا کہ حکومت نے جو ہمارے لیے سہولیات فراہم کر رکھی ہیں ،اُن کا دُرست استعما ل کر رہے ہیں ۔واپڈہ کے کسی بھی آفس چلے جائیں آپ کو زندگی تڑپتی دِکھے گی ۔زندگی کا تماشا خوب ہو تا ہے ۔حکومت کو گنگال اور قرض دار کرنا اِن کا اولین فرض ہے ۔میٹر ریڈر سے لے کر اوپر تک کے آفیسر تک برابر کی تقسیم ہوتی ہے ۔یار دوستوں میں اِن کو کہتے سُنا ہے۔یا ر اس سیٹ کے لئے فلاں ،فلاں کو اتنی رشوت دی ہے تب جا کر یہ سیٹ ملی ہے ۔کیا اب میں اپنی رقم وصول نہ کروں؟عوام کا کیا ہے ؟اس کے ساتھ رحمدلی کی جائے تو سر پہ سوار ہو جاتے ہیں۔

Corruption

Corruption

جس آفس میں ،میں اپنی باری کے انتظار میں قطار میں کھڑا ہوں۔سامنے باریش بزرگ شخص جو بظاہر دین دار دِکھتا ہے ۔ہر شخص سے دو سو کا نذرانہ وصول کر رہا ہے ۔جس نے انکار کیا فائل وہ گئی ۔۔۔کنزیومر نمبر لینے کے 200،فائل نکلوانے کے 200۔یوں سمجھیں یہاں دو سو کا ہندسہ چل رہا ہے ۔کسٹمرز بیچارے جیبوں سے بھی گنگال ہو رہے ہیں اور شاید ایمان سے بھی ۔ جس آفیسر سے میراپالا پڑا ہے ،اُس نے میرا موبائل لے کر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے ۔کسی دوست کو کال کر رہا ہے ۔کچھ معاملات طے ہوئے ہیں اور پھر مجھ سے مخاطب ہوا ہے ۔جناب 100والا کارڈ لگے گا۔آپ کا کام دس منٹ میں ہو جائے گا۔آپ کو دوسرے آفس جانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی۔وہاں جائیں تو وقت کا ضائع بھی ہوگا اور پٹرول کی مد میں رقم الگ خرچ ہو گی ۔آپ کی بچت کروا رہا ہوں ۔100کا نوٹ دیں ۔بندہ کارڈ لے آتاہے ۔اس آفیسر کو لوڈ کرواتے ہیں پھر کام یہ ہوا۔۔۔۔اور شاید وہاں بیٹھا آفیسر بھی ایسے ہی کر رہا ہوگااور شام تک دونوں آفیسر حضرات ڈیہاڑی کے ساتھ ساتھ مہینہ بھر کا راشن پانی جمع کرکے جاتے ہوں گے۔۔۔

میرے ساتھ جو ہونا تھا سو ہو گیا۔۔۔دھمکیاں ملیں،بحث و تکرار ہوا۔کام وہیں اٹک کر رہ گیا ۔ بیچارے دیہاتی لوگ سادہ دل ہوتے ہیں ،اُن کو بہانوں سے بہلا پُھسلا کر ڈستے ہیں ۔۔مجھے ایک واقع یا د آ رہا ہے ۔میرے ہمسائے کا میٹر جل گیا ۔وہ میٹر تبدیلی کی درخواست دینے گیا تو معاملہ کچھ اس طرح ہوا۔آفیسر سفید ڈراھی والا بزرگ ہے اور اُس کے ہاتھوں میں تسبیح ہے ۔ہمسائے نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔جواب ملا ۔دیکھیں بھائی ۔۔حکومت کی اتنی فیس ہے ،بینک میں جمع کروانی ہوگی اور انتظار الگ۔۔۔اگر ہمیں اس فیس کی آدھی دے دیں تو انتظار نہیں ہوگا۔اُدھر آپ گھر پہنچے اِدھر میٹر تبدیل ہوا۔۔سیدھی سے بات ہے ۔سبھی ہمیں رشوت خور۔حرام خور کہتے ہیں ۔پھر بھی آپ کے فائدے کا سوچ رہے ہیں ۔اس جیسے ہزاروں واقعات روز ہی ہوتے ہیں۔

میں حیران ہوں جو اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرتا وہ خود سے کیا انصاف کرے گا۔جب جاب کے حلف نامے پر دستخط کرتے ہیں تو خدا کو حاظر وناظر جا ن کر حلف دیتے ہیں ۔اور پھر اُسی خدا کے ساتھ مذاق کرتے ہیں ۔اُس کو دھوکہ دیتے ہوئے ڈھٹائی سے پھیکی پھیکی مسکراہٹ سے جیبیں بھرتے ہیں۔اِن کی سُن لو سو سو شکوے ۔انصاف نہیں ملتا۔اولاد کہنا نہیں مانتی ۔بیوی بیمار رہتی ہے ۔باپ چارپائی پر کھانستا رہتا ہے ۔ٹینشن میں رہتا ہوں۔سکون و قرار نہیں ہے ۔زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے ۔کبھی خود کا احتساب نہیں کیا۔۔یہ اپنے پیداکرنے والے سے نہیں ڈرتے جو سب دیکھ رہا ہے اور سب جانتا ہے ۔میں یقین سے کہتا ہوں آج بھی ہر شہری ،ہر سرکاری آفیسر اپنے ساتھ انصاف کرنے لگ جائے یہ ملک ترقی کر جائے گا۔عدل و انصاف کریں تو ملک میں افراتفری ختم ہو جائے گی ۔ہر طرف سکون اور دِلوں کو قرار آ جائے گا۔ہاں مگر خود کو احتساب کے لئے تیار کرنا ہوگا ۔پھر واپڈہ کے خسارے بھی پورے ہوں گے ۔ملک بھی قرضے سے نجات حاصل کر لے گا اور کُرسی ،کُرسی کی گردان نہیں ہوگی۔محبتیں جب عام ہوجائیں گے تو بھائی چارہ قائم ہو گا ۔جس کی اس جدید دُور میں اشد ضرورت ہے ۔بھائی چارے سے ہی سبھی خسارے پورے کیے جا سکتے ہیں۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجید احمد جائی