کراچی (جیوڈیسک) سابق کپتان راشد لطیف نے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ بورڈ کوئی قدم اٹھائے ہیڈ کوچ وقار یونس کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر لینا چاہیے، انھوں نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا اور اپنے نام و مرتبے کے لحاظ سے فیصلے کھلاڑیوں پر تھوپ رہے ہیں،ٹیم میں شامل بیشتر پلیئرز نئے ہونے کے سبب کچھ نہیں کہہ پا رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیش سے سیریز میں کلین سوئپ کی خفت کے بعد ہیڈ کوچ وقار یونس کی من مانی نمایاں ہوکر سامنے آگئی، بی بی سی سی کو انٹرویو میں سابق کپتان راشدلطیف نے کہا کہ وقار یونس بلاشبہ اپنے دور کے بہت بڑے کھلاڑی رہے۔
وہ جس ٹیم میں کھیلتے وہ بھی بہت بڑی تھی، وہ پہلی بار کوچ نہیں بنے لیکن ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ انھوں نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا،اس سے قبل کہ کرکٹ بورڈ ان کے بارے میں کوئی قدم اٹھائے انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ خود کر لینا چاہیے۔
راشد لطیف نے مزید کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وقار یونس اپنے نام اور مرتبے کے مطابق فیصلے کھلاڑیوں پر تھوپ رہے ہیں، چونکہ ٹیم میں اکثریت نئے کھلاڑیوں کی ہے لہٰذا وہ کچھ نہیں کہہ پاتے، اظہر علی کو کپتانی سونپنا بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتی ہے۔
راشد لطیف نے بنگلہ دیش کیخلاف تیسرے ون ڈے میں وکٹ کیپر سرفراز احمد کو ڈراپ کیے جانے کو بھی مضحکہ خیز فیصلہ قرار دیا، انھوں نے کہا کہ سرفراز دباؤ میں اچھا کھیلنے والے چند بیٹسمینوں میں سے ایک ہیں، وہ کل تک ہیرو تھے لیکن آج انھیں ڈراپ کرکے زیرو کردیا گیا، یہ فیصلہ سمجھ سے بالاتر اور اس کی کوئی بھی معقول وجہ نہیں ہے۔
راشد لطیف نے مزید کہا کہ سرفراز نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں بھی زبردست بیٹنگ کی تھی، وہ ورلڈ کپ کے ابتدائی میچز میں بھی کسی صورت ڈراپ نہیں ہوتے تھے، اب جبکہ وہ ٹیم کے نائب کپتان ہیں انھیں باہر بٹھا کر یہ پیغام دیا گیا کہ کرکٹ بورڈ کو کسی بھی کھلاڑی پراعتماد نہیں ہے۔
احمد شہزاد کے معاملے پر انھوں نے کہا کہ اسے ڈسپلن کے نام پر ون ڈے ٹیم سے باہر کرنا کرکٹ بورڈ کی اپنی ناکامی ہے، انھیں اگر ڈراپ کرنا ہی تھا تو بہتر ہوتا کہ ورلڈ کپ کے دوران ہی وطن واپس بھیج دیا جاتا، یہ ٹیم مینجمنٹ کی کمزوری ہے کہ اس وقت غلطی پر پردہ ڈالے رکھا۔