تحریر : انجینئر افتخار چودھری طورخم اور چمن بارڈر پر حالیہ لڑائی نے ایک نئی بحث چھوڑ دی ہے سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے اور ہمیشہ کی طرح جب بھی افغانستان کی طرف سے چھیڑ خانی ہوتی ہے تو یار لوگ ان غریب الدیار افغانیوں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔چائینیز مثال ہے کہ اگر آپ لڑائی میں اصل دشمن کو پہچان لیتے ہیں تو آپ آدھی جنگ جیت جاتے ہیں۔ہم ایک طرف تو کہتے ہوئے تھکتے نہیں کہ افغان حکومت صرف کابل تک محدود ہے اور وہ بھی انڈیا اور امریکہ کے سہارے سانس لے رہی ہے لیکن یہ نہیں سننا چاہتے کہ ہمارے اصل دشمن انڈیا اور امریکہ ہیں جو ایک مدت سے پاکستان کی بغل میں بیٹھ کر پاکستان کی داڑھی نوچ رہے ہیں۔
افغانستان کو سمجھنے کے لئے اس کی اندرونی کیفیت کو سمجھنا ہو گا اور ہمیں اپنے دوست اور دشمن جاننا ہوں گے۔جی ہاں ایک مدت سے پاکستان سے ایک آواز اٹھ رہی تھی جسے بعض مضبوط حلقوں نے دبا کے رکھ دیا ہے اور ایک بڑی مضبوط آوز کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے کہ ایسا کرو گے تو اقتتدار کے نزدیک نہیں آ پائو گے۔یہ بات ذہن میں رکھ لیجئے کہ افغانستان دو اکائیوں میں بٹا ہوا ملک ہے ایک سنی پشتو سپیکنگ افغانستان ہے اور دوسرا افغانستان فارسی سپیکنگ شیعہ ہے۔آپ نے ماضی میں وادی ء پنج شیر کے شیر احمد شاہ مسعود کا نام سنا ہو گا وہ فارسی اسپیکنگ علاقے سے تھا اور ایرانی پشت پناہی سے روز و شب گزار رہا تھا دوسری جانب گلبدین حکمتیار وغیرہ لوگ تھے جو سعودی عرب اور پاکستان کی مدد سے اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے۔
افغانستان ایک مدت سے ایرانی اور سعودی کشتی کا اکھاڑا بنا ہوا تھا جس میں پاکستان اپنا حصہ نہ ڈالتا تو اسے عبرت ناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ۔ویسے بھی روس چائینہ کی طرح چالاک نہیں تھا جس نے گرم پانیوں تک آرام سے رسائی کر لی ۔پاکستان نے سنی افغانستان کا ساتھ دیا اور یہی وجہ تھی کہ ایک وقت جب روسی فوجیں دریاے آمو پار کر کے افغانستان میں داخل ہوئیں تو دونوں طاقتوں کو احساس ہوا کہ روس کی مداخلت دونوں کو لے ڈوبے گی۔پاکستان اس لڑائی میں اکیلا ہی کودا اور ١٩٧٩ کے کے بعد تقریبا دو سال تک جنرل ضیاء الحق شہید اکیلے لڑتے رہے انہوں نے ایک کمال کام یہ کیا کہ ہرارے کی کانفرنس میں سعودی عرب اور ایران کی دوستی کرا دی۔ہمارے یہ ککن مونے سیاست دان جو اپنے آپ کو ایک تگڑا لیڈر گردانتے ہیں کبھی ان میں ہمت نہیں ہو سکی کہ وہ ایران اور سعودی عرب کو ایک میز پر بٹھا سکیں۔ایرانی سعودی مشترکہ قوت اور اس میں پاکستان کا فرنٹ لائن کا کردار ہی تھا جس نے روس کو ناکوں چنے چبوا دئے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امریکہ تھا جس نے روس کو افغانساتن سے نکالا ۔یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی امریکہ کوئی ١٩٨١ کے آگے پیچھے اس لڑائی میں شامل ہوا اور اس نے افغانیوں کی داد رسی کی۔یہ وہ دور تھا جب جہاد افغانستان کے لئے ھرمین شریفین میں وتر کی نمازوں میں دعائیں مانگی جاتی تھیاں اور مساجد میں ان کی امداد کے لئے بکسے رکھے جاتے تھے۔
گلبدین حکمت یار سعودی عرب جاتے تو ان کا والہانہ استقبال کیا جاتا میں سعودی عرب میں تھا وہاں سے مجاہدین کی ایک فوج ظفر موج افغانستان جایا کرتی۔انہی میں اسامہ بن لادن جیسے امراء بھی شامل تھے جنہوں نے مشکل زندگی اپنائی۔ملا عمر نے ایک ایسی حکومت قائم کی جس کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔انہوں نے وہ حکومت قائم کی جس کی مثالیں پرانے اسلامی دور میں ملتی ہیں۔میرے ایک رفیق کار القسیم سعودی عرب میں میرے ساتھ تھے انہوں نے مجھے واقعہ سنایا کہ ایک بار ہمیں قابل کی سڑک پر ایک بیگ ملا ایک دوست نے کہا اسے اٹھا کر پولیس کو دے دیتے ہیں دوسرے نے کہا یار اسے یہیں پڑا رہنے دو طالبان آ گئے تو مصیبت پڑ جائے گی۔ افیون کی کاشت کو ناممکن بنا دیا گیا اور وہ افغانستان جو ہیروئن پوست افیوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر تھا اس نے ثابت کیا کہ وہ اس قاتل نشے کے خلاف ہے۔
پھر اس دوران ہوا یوں کہ دنیا کے سامنے سب سے بڑا جھوٹ بولا گیا اور امریکہ میں دو ناکام بزنس سینٹر گرا دئے گئے۔میں ان دنوں ساماکو جدہ میں ملازمت کرتا تھا اس دن ہم لوگ اضافی کام کر رہے تھے اتنے میں ورکشاپ کے اندر شور اٹھا پتہ چلا جہاز ان عمارتوں سے ٹکرائے ہیں۔میرے دفتر میں واکس ویگن پاساٹ چھ سیلینڈر کا ایک اونر بیٹھا ہوا تھا دانتوں پر تاریں چڑھی ہوئی تھیں میں شور سن کر اندر گیا تو وہ نوجوان بھی میرے ساتھ یحی انور اور دیگر عرب مسلمانوں کو سننے گیا۔میں نے واپسی پر جاب کارڈ دیکھا وہ نوجوان جو میرے ساتھ تھا اس کا نام عبداللہ بن اسامہ بن لادن تھا۔ایک گاہک تھا مجھے اس دن کے بعد کبھی نظر نہیں آیا پتہ نہیں کہاں ہے کس حال میں ہے۔لیکن میرے پاس ایک زندہ سوال چھوڑ گیا تھا کہ جب ہم ان کو ماں جایا سمجھ رہے تھے تو پھر کیا قیامت آئی کہ ہم نے ان سب کو دشمن سمجھ لیا۔یاد رکھئے پاکستان کی دنیا بھر میں اور خاص طور پر عالم اسلام میں عزت اسی وجہ سے تھی کہ اس نے اپنے پاسپورٹ ان افغانیوں کو دئے آپ نے مکہ مکرمہ کی پہاڑیوں پر جھونپڑیوں کو دیکھا ہو گا وہاں بسنے والے سارے برمی پاکستانی پاسپورٹوں پر موجود ہیں۔پاکستان ایک عظیم ملک ہے۔اب جب کبھی ہندوستانی ایجینٹوں کی حکومت کے فوجی ہم سے لڑتے ہیں تو ہمیں اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جتا ہے کہ یہ افغانی ہیں جن پر ہم نے احسان کیا تھا نہیں بھائیو یہ تو ہمارے وہ دوست تھے جنہوں نے ہمارا بارڈر محفوظ کئے ہوا تھا۔جنہوں نے پاکستان کے دشمنوں کو لگام دے رکھی تھی۔
ان سے پیار کیجئے۔مجھے صرف اتنا بتا دیجئے کہ کیا ان کے آنے سے پہلے جرائم نہیں ہوا کرتے تھے؟مجھے کہنے دیجئے کہ یہ لوگ جب کاروبار میں آئے تو سخاوت کی نشانیاں بن گئے ان کے ہوٹلوں پر جائے آپ کو کھلے دل سے تواضح کریں گے سعودی عرب کی رز کبسہ کی دکانیں نوے فی صد افغانیوں کی ہیں ایک بندے کے کھانے سے تین کا پیٹ بھر جاتا ہے اس کی بجائے پاکستانیوں کے ہوٹلوں میں معدودے چند کے کنجوسی ٹپکتی ہے۔کالینوں کی دکانیں فرنیچر غرض ٹرانسپورٹ میں انہوں نے نئے رنگ دکھائے۔کسی کو یاد ہے ١٩٧٩ ہماری بیڈ فورڈ کراچی سے چلتی تھی تو اسے راستے میں خط لکھا جاتے تھے ان لوگوں کے سکس ویلرز نے ٹرانسپورٹ کو سستا کیا۔
افغانی جہاں بھی ملے گا محنت کرتے ہوئے ملے گا۔یہی حال ہمارے پشتونوں کا ہے۔ گینتی بیلچے کی مزدوری میں یہی لوگ کراچی سے پشاور تک جان لڑا رہے ہیں۔ ہم ایک انٹر نیشنیل سازش کا شکار ہیں۔آج پختونوں اور افغانیوں کو دیکھ کر یہ تآثردیا جا رہا ہے کہ یہ بم دھماکے کرتے ہیں۔اجیت دوول کو سن لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے کہاں کہاں ایجینٹ پیدا کئے۔خدا را اپنے دشمنوں کو پہچانئے جو کم از کم ان افغانیوں میں نہیں جو پاکستان میں سر چھپانے آئے ہیں۔اگر ایسا کر لیا تو انشاء اللہ ہم اپنی آدھی نہیں پوری جنگ جیت جائیں گے۔