آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، طالبان سے مذاکراتی عمل شروع ہونے اور جنگ بندی کے اعلان سے یہ خدشات ظاہر کئے جا رہے تھے کہ طالبان مذاکرات اور جنگ بندی کے نام پر وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔لیکن بعض دوستوں کی طرف سے ان تبصروں اور تجزیوں کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔۔یہ کہا گیا کہ مذاکرات کی مخالفت کرنیوالے ملک کو جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔۔۔اور اب تحریک طالبان مہمندایجنسی کے سربراہ خالد خراسانی نے خود اعلان کر دیا ہے کہ ” جنگ بندی معاہدے کی مدت ختم ہوگئی، اب جنگ ہو گی اور عوام کاخون بہے گا۔
پاکستان کے حالات حاضرہ پرلکھے اپنے ایک مضمون میں خالدخراسانی نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبان میں فائربندی معاہدہ کی مدت ختم ہوگئی ہے جس میں توسیع نہیں کی گئی ،اب جنگ ہو گی ،دھماکے ہونگے اورعوام مریں گے۔۔۔لیکن اس کی ذمہ داروہ نہیں بلکہ حکومت پاکستان ہے جس نے فائربندی کے دوران وعدہ شکنی کی اوردرجنوں طالبان یا ان کے حامیوں کو ہلاک کیا جبکہ بیسیوں گرفتارکئے گئے۔حالانکہ حکومت نے خفیہ طورپریہ شرط تسلیم کی تھی کہ جنگ بندی کے دوران چھاپے نہیں مارے جائیں گے۔ان کے مطابق حکومت اورفوج ملک میں امن چاہتی ہی نہیں ہیں،ملک کا باثرطبقہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے کیونکہ جنگ بندی سے ان کا بزنس اورکمائی ختم ہو جائیگی۔
تحریک طالبان کے کمانڈرنے جنگ بندی کے دوران حکومت پروعدہ شکنی کا الزام لگایا ہے لیکن جنگ بند ی کے دوران جوخودکش حملے ہوئے ،دھماکے کئے جاتے رہے اوردرجنوں بیگناہ شہری شہید ہوئے ان کا ذمہ دارکون ہے ،کیا یہ جنگ بندی کے خلاف نہیں ہے ،حالانکہ جس وقت جنگ بند ی کا اعلان کیا گیا بعض دفاعی ماہرین نے یہ خدشہ ظاہرکیا تھا کہ طالبان جنگ بند ی کے دوران خودکومنظم کرنا چاہتے تھے اوراس عرصے میں انہوں نے لازما کوئی ناکوئی حکمت عملی یا تیاری کرلی ہوگی جس کے بعد خالدخراسانی کو اس طرح کی بات کرناپڑی ،یہ بات بھی واضع ہے کہ جنگ بندی کے دوران حکومت نے کیا حاصل کیا ہے ،طالبان نے ایک انچ جگہ چھوڑی اورنہ ہی اپنے موقف سے پیچھے ہٹے ہیں،طالبان فاٹا کی آزادی یا انسانی اور جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں، و ہ مخصوص نظریات اورسوچ کو ریاست ِ پاکستان پر عملی طور پر نافذ کرناچاہتے ہیں ،ہمیں اس سے بھی کوئی اختلاف نہیں ہے ہرشخص کواپنی سوچ ،نظریئے کو دوسروں تک پہنچانے کا حق ہے لیکن اس کا ایک جمہوری طریقہ موجود ہے۔۔بندوق کی نوک پر اپنی سوچ اور نظریات کو دوسروں پر لاگو نہیں کیا جاسکتا،یہ بات طالبان قیاد ت کو سمجھنا ہو گی، ملک میں امن کا قیام ہو یا پھر حقیقی معنوں میں اسلامی شریعت کا نفاذ یہ سب جمہوری عمل سے ہی ممکن ہے۔
Maulana Sami ul Haq
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت شدید مخالفت کے باوجود مذاکرات کا عمل جاری رکھنا چاہتی ہے ،وزیراعظم خوداس عمل میں دلچسپی لے رہے ہیں اوراس مذاکراتی عمل کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں ،طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سمیت کمیٹی کے کئی ارکان حکومت اورطالبان دونوں سے جنگ بندی میں توسیع کی اپیل کر رہے ہیں ،کیونکہ جنگ بندی ہوگی توامن ہوگا اورمذاکراتی عمل آگے بڑھے گا،طالبان کے نزدیک اگر حکومت نے وعدہ شکنی کی ہے توطالبان بھی ان گروپوں کو منظرعام پرلانے میں مددکریں جو جنگ بندی کے دوران حملے اوردھماکے کرتے رہے ہیں،طالبان کمانڈرکی طرف سے جنگ شروع ہونے کی دھمکی یا خدشہ حالات خراب کر سکتا ہے اورامن کے لئے کی جانیوالی تمام تر کوششوں پرپانی پھر جائیگا، مولانا سمیع الحق کو طالبان کمانڈر کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہئے اوران سے بات کرنی چاہئے۔
بقول پروفیسر ابراہیم طالبان جنگ بندی میں توسیع چاہتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں آیا ہے صورتحال کو گھمبیر بنا دیتا ہے۔ حکومت اگرمذاکراتی عمل کا تسلسل اور انہیں نتیجہ خیز بنانا چاہتی ہے تو پھر کسی تاخیر کے بغیر جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کر دیا جانا چاہئے لیکن اگر حکومت کوئی اور فیصلہ کر چکی ہے تو پھر قوم کو مزید تذبذب میں نہ رکھا جائے۔
ملک کی کئی مذہبی ،سیاسی شخصیات حکومت کویہ مشورہ دے چکی ہیں کہ طالبان کے جوگروپ مذاکرات چاہتے ہیں ان کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کرتے ہوئے بات کا عمل جاری رکھا جائے اور جو گروپ جنگ چاہتے ہیں ان سے بندوق کی زبان میں ہی بات کی جائے۔ادھرطالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے کہا ہے کہ جنگ بندی میں توسیع کے معاملے پر طالبان شوری میں اختلاف ہے،تاہم جلد ہی یہ اختلاف ختم ہو جائیگا،اس کے بعد کیا ہو گا، کیا طالبان جنگ بندی میں توسیع پرمتفق ہوجائیں گے یا پھر جس طرح طالبان کمانڈر خالد خراسانی نے کہا ہے ”اب جنگ ہوگی ،دھماکے ہونگے اور عوام مریں گے۔