ترکی (جیوڈیسک) صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ ترکی نے ایک نئی جنگ نجات لڑی ہے۔
جناب ایردوان نے استنبول بلدیہ کی جانب سے حیاتیاتی فضلوں کی ٹریٹمنٹ پلانٹ اور ماحولیاتی سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک افتتاحی تقریب میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ” ترکی خاصکر گزشتہ تین برسوں سے ایک آتشی گولے سے گزر رہا ہے۔ اس جدوجہد کا صحیح نام رکھنے کی ضرروت ہے۔ جمہوریہ ترکی کے قیام کے 90 برس بعد ہم ایک نئی جنگ نجات لڑ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کا اصل معنی بھی یہی ہے۔ یہ جنگ محض ایک محاذ پر نہیں بلکہ سیاسی، فوجی، سفارتی، اقتصادی اور سماجی ہرمیدان میں لڑ رہے ہیں۔”
انہوں نے سزائے موت کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ”میں ہینز یا پھر جیورج کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا۔ میں حق و عوام کے حق میں جواب دہ ہوں۔ اگر ترک عوام سزائے موت کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پارلیمان اس کا فیصلہ کرے گی۔ میں بھی اس فیصلے کی منظوری دے دوں گا۔ اب یورپی یونین کے بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ صدر ترکی سزائے موت کے حق میں ہیں۔ اس سے آپ کو کیا؟ اگر قومی ارادہ اس چیز کا متمنی ہے اور اپنے نمائندوں سے اسی چیز کا مطالبہ کر رہا ہے تو اس کا فیصلہ ترک پارلیمنٹ ہی کرے گی۔ میرا کام محض اس کی منظوری دینا ہو گا۔ ”
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہیں میں 248 ترک شہریوں نے شہادت کا جام نوش کیا ہے۔ ملک کے غدار پارلیمنٹ پر، باسفورس پل پر پولیس ہیڈ کوارٹر پر بم پھینکے گے اور ہم خاموشی سے تماشا دیکھتے رہیں گے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ لوگ ہم سے اسی چیز کی توقع رکھتے ہیں۔