تحریر : مسز جمشید خاکوانی دنیا کا سب سے کرپٹ ترین بزنس ادویات سازی اور ادویات فروشی کا ہے یہ واحد کاروبار ہے جو اصل بھی اس قدر جعلی ہے کہ پوری دنیا اس کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے آپ کے محلے میں بنے میڈیکل سٹور پر ہر قسم کی ادویات فروخت ہوتی ہیں ان میں ایک اصلی اور دوسری جعلی ہوتی ہے میڈیکل سٹور والا آپکی شکل دیکھ کر تعین کرتا ہے آپ کو اصلی دوائی دینی ہے یا نقلی اصل دوائی پر میڈیکل سٹور والے کو پندرہ فیصد جبکہ جعلی دوائی پر پچاس فیصد نفع ہوتا ہے جعلی ادویات اور کچھ نہیں کرتیں بس آپ کے گردے فیل کرتی ہیں، آپ کے بچے کو دمے کا مریض بنا دیتی ہیں، آپ کی اماں کو شوگر اور ہیپا ٹائٹس کا مستقل مریض بنا دیتی ہیں۔
آپکے ابا کی کھانسی صبح قیامت تک ٹھیک نہیں ہوتی کیونکہ جعلی دوائیں صحت نہیں دیتیں صحت بگاڑ ضرور دیتی ہیں ایک بار میں نے ایک ایسے بندے سے سوال کیا جو اس کاروبار سے منسلک تھا کہ پ کو ڈر نہیں لگتا جعلی دوائی سے کسی کی جان چلی جائے کہنے لگا ہم کوئی زہر تھوڑی ملاتے ہیں بس جو اصل سالٹ ہوتا ہے اس میں سے اہم جز کم کر دیتے ہیں ایک کی بجائے دس شیشیاں پینی پڑ جاتی ہیں ،دوسرا ہم وٹامنز کی گولیا ںمیدے اور بیسن سے بنا کے شوگر کوٹ کر دیتے ہیں اس میں اگر فائدہ نہیں تو نقصان بھی نہیں میں نے پوچھا نقصان کیسے نہیں کہنے لگا کیوں لوگ میدہ اور بیسن ویسے بھی تو کھاتے ہیں ہسپتالوں میں جو سستی یا مفت ادویات فراہم ہوتی ہیں وہ ہم اصل تو نہیں بنا سکتے نا اسی لیے جو صاحب حیثیت ہوتا ہے اسے ہم نسخہ پکڑا دیتے ہیں۔
جائو باہر سے دوائی لائو اب اگر اسے باہر سے بھی جعلی دوائی ملے تو اس کی قسمت ،ظاہر ہے ہر صاحب اسطاعت علاج کے لیے باہر کیوں جاتا ہے؟ کیونکہ اسے ڈاکٹر نہیں دوا پہ بھروسہ نہیں ہوتا اب تو باہر بھی کم فراڈ نہیں ہو رہے یورپ میں رہنے والی میری ایک عزیزہ کا بچہ بار بار کھانسی میں مبتلا ہوتا ہے اور ہر بار اسے وہ اینٹی بایوٹک سیرپ دیا جاتا ہے جو اسے ری ایکشن کر جاتا ہے لیکن وہاں کے ڈاکٹر بھی یہ نوٹ کرنا گوارہ نہیں کرتے کہ اس سالٹ والا سیرپ نہ دیں جو اسے ری ایکشن کر رہا ہے کیونکہ وہاں بھی انشورنس کی وجہ سے انہیں مفت دوا دینی پڑتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو یہ ایک نہایت منافع بخش کاروبار ہے میں نے اپنے ہی شہر میں پک اپ چلانے والوں کو لینڈ کروزروں کا مالک بنتے دیکھا ہے ان کے مٹی گارے کے بنے گھروں کو ماربل میں ڈھلتے دیکھا ہے یہ سب کچھ ایسے نہیں ہوتا لوگوں کو راتوں رات امیر بننے کی بیماری لگ چکی ہے وہ دو نمبر مال سے اربوں پتی بننا چاہتے ہیں اور حکومت اس میں حصہ دار بننا چاہتی ہے کیونکہ آجکل یہ سروے کرایا جاتا ہے کہ کون سا کاروبار سب سے زیادہ منافع دے رہا ہے۔
Medical Store Protest
جب رپورٹ ملتی ہے تو پلان تیار ہوتا ہے وہ ہوتا ہے کمیشن میں اضافہ حکومت ان کمپنیوں کی جیبیں کاٹتی ہے کمپنیاں میڈیکل سٹوروں والوں کی گردن دباتی ہیں اور میڈیکل سٹور والے گاہکوں کو لوٹتے ہیں یہاں تک تو ٹھیک تھا جب جعلی سٹنٹس کا انکشاف ہوا تو اوپر والوں کو احساس ہوا یہ تو گنگا نہا رہے ہیں تگڑا کمیشن مارا جائے ابھی شائد آپ کو یاد ہو کہ ان سات سالوں میں دوسری اشیائے سرف کے علاوہ ادویات کی قیمتوں میں تین سو فیصد تک کا اضافہ کیا گیا ہے سستی ترین دوائی تھیروکسن جو دو ہزار پانچ میں صرف سات روپے کی ملتی تھی اب سو روپے سے اوپر اس کی قیمت ہے جان بچانے والی ادویات کا تو کوئی شمار ہی نہیں ،اپنے پیاروں کی جان بچانے کے لیے لوگ ہر قیمت ادا کرتے ہیں ،ہر کاروبار میں ایک مافیا کام کر رہا ہے جو اگر کوئی خدا خوفی کرے بھی تو اس کا جینا حرام کر دیتا ہے نیچے سے اوپر تک کمیشن اور منتھلیاں چلتی ہیں ایک صاحب جو آجکل صحافی ہیں پہلے فارما سیوٹیکل مارکیٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے ہوشربا انکشافات کیے بقول ان کے اگر ایک دوائی سو روپے کی ہے تو اس میں ڈیلر کو بیس فیصد اور چھوٹے سٹور کو پندرہ فیصد ڈاکٹر اپروول پر پینتیس فیصد خرچ آتا ہے یعنی فیکٹری کو دوائی پینتیس روپے میں تیار کرنا ہوتی ہے اور اپنی بچت بھی اسی میں سے نکالنی ہوتی ہے۔
لہذا اس کا حل یہ نکالا کہ دوائی میں استعمال ہونے والے سالٹ میں سے اہم جز نکال دیا یا کم کر دیا اس طرح وہ دوائی سستے میں تیار ہوتی ہے کچھ کیسوں میں یہ بھی کیا جاتا ہے کہ دو طرح کی دوائی تیار کی جاتی ہے ایک بہتر سالٹ کے ساتھ کم کمیشن اور مارجن کے ساتھ دوسری جعلی جس میں کمیشن آپکی مرضی کے مطابق،وہ کون سا میڈیکل سٹور یا تاجر ہو گا جو اصل دوائی کم مارجن پر لے گا؟یہاں جھگڑا اور احتجاج کمیشن کا ہے جس میں اب ہمارے حکومتی ادارے بھی شامل ہو گئے ہیں سادہ الفاظ میں آپ کو سمجھائوں تو موجودہ صورت حال میں فیکٹری مالکان بھی اس پینتیس فیصد میں سرکاری ملازمین اور اداروں کو کمیشن دینے کے متحمل نہیں ہیں اس لیے انہوں نے میڈیکل سٹور مالکان کو یہ کہہ کر ڈرایا ہے کہ اگر دوائی اصل دینی پڑی تو کمیشن صرف پانچ یا دس فیصد دیں گے کیونکہ ڈاکٹروں کا کمیشن تو بند کر نہیں سکتے ورنہ ان کی دوائی لکھے گا کون؟ جس کی وجہ سے میڈیکل سٹور مالکان اس کو اپنا معاشی قتل قرار دے کر سڑکوں پر آ گئے ہیں حالانکہ ان کو یہی احتجاج فارما سیوٹیکل کمپنیوں کے خلاف کرنا چاہیے اور احتجاج کر کے اپنا معقول کمیشن سی کرنا چاہیے ان کو میڈیا پر دکھا کر یا ہڑتال کر کے بڑے مگر مچھ اپنا فائدہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
گویا عوام کے لیے موت بانٹنے کی اجازت مانگ رہے ہیں ہم زیادہ تر حکومت پر نقید کرتے ہیں اور یہ ہمارا حق بھی ہے (کیونکہ یہ کھڑاگ فی لحال کمپنی کی مشہوری کے لیے پھیلایا گیا ہے) لیکن اب ہم کہتے ہیں کہ شہباز شریف کو ڈٹ جانا چاہیے تاکہ موت کا یہ کاروبار بند ہو سکے کیونکہ مستقبل میں یہ فیصلہ ایک سنگ میل ثابت ہوگا اس ترمیمی ڈرگ ایکٹ کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں میڈیکل سٹور مالکان اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں میں سے کسی کا ذاتی نقصان نہیں بلکہ میں حیران ہوں کہ میڈیکل سٹور مالکان کے لیے تو کچھ بھی نہیں بس ان کو یہ کہا گیا ہے کہ ٹمپریچر برقرار رکھیں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو جعلی ادویات بنانے پر دو سے چھ کروڑ کا جرمانہ اور دو سے دس سال کی سزا ہے تو پھر سٹور مالکان کیوں سڑکوں پر ہیں کیا یہ فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو جعلی ادویات بنانے کی اجازت دلوانا چاہتے ہیں؟اس ایکٹ کے مطابق حکومتی متعلقہ ادارے ان کی بنائی گئی ادویات کو لیبارٹری چیک کریں گے اگر ادویات جعلی ثابت ہوئیں تو بھاری جرمانے اور کاروبار سیل ہو سکتا ہے ورنہ یہ اپنا کاروبار آرام سے کریں انہیں کس بات پر اعتراض ہے کہ انہیں جعلی دوائیں بیچنے دی جائیں میرے حساب سے تو یہ قتل جیسا جرم ہے اور اس کی سزا بھی قتل کے برابر ہونی چاہیے میرے خیال میں میڈیکل سٹورز مالکان کو خود کو سانڈوں کی اس لڑائی سے الگ کر لینا چاہیے اگر وہ عوام کے ساتھ مخلص ہیں!۔