گرم پانی اور سی پیک

Trade

Trade

تحریر : سید کمال حسین شاہ
دنیا بھر میں عہد قدیم سے لیکر آج تک انسانوں اور ممالک کی معیشت کا انحصار ان کی تجارت پر رہا ہے۔ آج دنیا میں جو ترقی نظر آ رہی ہے وہ تجارت اور کاروبار ہی کی مرہون منت ہے جبکہ سب سے زیادہ آپس کی لڑائیوں اور جنگوں کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ عہد قدیم میں چین کو ایشائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک سے ملانے والی گذر گاہ شاہراہ ریشم (سلک روٹ) کہلاتی تھی۔یہ گذرگاہ بارہ ہزار کلو میٹر کے قریب طویل ہے۔ اس گذر گاہ کیلئے شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے 1877 ئمیں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی گذر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ قدیم سڑک چین، سنٹرل ایشیائکے ممالک، برصغیر (پاک و ہند)، فارس (ایران) اور روم کی قدیم تہذیبوں کی ترقی میں ایک اہم ترین عنصر تھی۔ ان ممالک اور ان سے ملحقہ علاقوں کی معیشت اور تجارت کا دارومدار سب سے زیادہ اسی گذر گاہ پر تھا۔اس تجارتی شاہراہ کا استعمال چین میں ہن شہنشاہوں کے دور میں ہوا تھا جب چین نے روم کے ساتھ تجارت شروع کی تھی۔جبکہ چین میں تنگ شہنشاہوں کے دور میں اس شاہراہ پر تجارت اپنے عروج پر تھی اور اسی دور میں اس شاہراہ کومزید وسعت دی گئی۔ برطانوی سکالر سروالٹر لارنس نے اپنی کتاب ”دی ویلی آف کشمیر” میں بھی شاہراہ ریشم (سلک روٹ) کے ذریعہ ان ممالک کے درمیان ہونے والی تجارت کا مفصل ذکر کرتے ہیں۔

اس شاہراہ کی دیگر اہم شاخوں میں سے ایک شاخ چین کے سنکیانگ علاقہ سے گزر کر لداخ کے علاقوں سے گزرتی ہوئی کشمیر اورہندوستان میں داخل ہو جاتی ہے جبکہ دوسری اہم شاخ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے ملاتی ہے۔ جسے اب شاہراہ قراقرم یا شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جبکہ اسے اینـ35 بھی کہا جاتا ہے یہ پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے۔یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور ہمالیہ کو عبور کرتی ہے۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اسکی بلندی 4693 میٹر ہے۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہوں میں شمار ہوتی ہے۔اس گذر گاہ کی اہمیت کے پیش نظر چین اور پاکستان نے اسے بیس سال کے عرصے میں 1986 میںمکمل کیا۔ اسکو تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دی۔ اسکی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد٫ ہری پورہزارہ سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔

روس دوسری بڑی طاقتوں کی طرح سمندروں پر حکمرانی کی کوششیں کرتا رہا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں برطانیہ کو دنیا کے سارے سمندروں تک رسائی حاصل تھی فرانس کو بحر اوقیا نوس اور بحیرہ روم تک ہمیشہ سے رسائی حاصل رہی ہے۔ جغرافیے نے روس کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے روس ایک لینڈ لاکڈ Locked Landاور بعض صورتوں میں آئیس لاکڈ Locked Ice ملک ہے مغرب میں یورپ روس کے بحر اوقیانوس تک پہنچ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ جنوب میں ایران، افغانستان اور پاکستان بحرہ عرب تک روس کو پہنچنے سے روک رہے ہیں اور مشرق میں چین اور جنوبی کوریا روس کو بحیرہ جنوبی چین تک نہیں پہنچنے دیتے۔

یورپ کیلئے سینٹ پیٹرز برگ کی بندرگاہ بھی استعمال ہو تی ہے کیونکہ شمال میں واقع بحر اوقیانوس میں تجارت سال میں صرف دو ماہ کیلئے ہو سکتی ہے۔یہ سمندر قطب شمالی کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے شدید سردی کی لپیٹ میں رہتا ہے اور یہاں برف جمی رہتی ہے۔ آبنائے ڈیوس، آبنائے ڈنمارک اور شمال مغربی اوقیانوس میں فروری سے اگست تک برفانی تودے ہوتے ہیں۔ یہ تودے جنوب کی جانب برمودا اور جزائر میڈیرا تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں۔ انتہائی شمالی اوقیانوس میں اکتوبر سے مئی تک بحری جہازوں کے عرشے پر برف جم جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مئی سے ستمبر تک مسلسل رہنے والی سمندری کہر اور خط استوا کے شمال میں مئی سے دسمبر تک آنے والے سمندری طوفان ایک بڑا خطرہ ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ ٹھنڈے پانیوں کے سمندر کہلاتے ہیں کہ جہاں تجارت بہت مشکل کام ہے۔ چنانچہ روس مشرقی بندرگاہوں کو استعمال کرتا ہے۔اس کے تجارتی بحری جہاز شمالی بحر الکاہل سے ہوتے ہوئے جاپان کے سمندر سے گزرتے ہوئے، خلیج بنگال سے ہوتے ہوئے بحر ہند میں داخل ہوتے ہیں اور یہاں سے خلیجی پانیوں سے گزرتے ہوئے یمن کے سمندر سے ہو کر نہر سویز کے ذریعے یورپی پانیوں میں داخل ہوتے ہیں یا پھر ایتھوپیا کینیا اور سا?تھ افریقہ کی طرف سے گزرتے ہوئے مراکش اور سپین کی جانب سے یورپ کی جانب یا امریکہ اور برازیل کی جانب جاتے ہیں۔ یہ سمندری روٹ گرم پانیوں کے روٹ کہلاتے ہیں کہ جہاں جہاز رانی بارہ مہینے ہوتی ہے اور اس میں کوئی موسمی رکاوٹ پیدانہیں ہوتی۔ بالکل اسی طرح چین کی چالیس کے قریب بندرگاہیںاس کے مشرق اور جنوب میں واقع سمندر ی ساحلوںپر واقع ہیں اور چین کا مال تجارت بھی روس کی طرح ایک لمبے سفر کے بعد خلیج ممالک، عرب،یورپ اور امریکہ جاتا ہے۔یہ سفر ایک تھکا دینے والا سفر ہے بحری جہاز کئی ماہ میں اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔ جبکہ اخراجات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔بعض اوقات کسی جہاز میں مال تجارت کی قیمت سے کئی گنا زیادہ خرچ اس کی ترسیل پر ہوجاتا ہے۔

Pak-China Economic Corridor

Pak-China Economic Corridor

اگر قدیم شاہراہ ریشم کو بحال کر دیا جاتا ہے تو نہ صرف ان دونوں ممالک یعنی روس اور چین بلکہ وسطیٰ ایشیائکی دیگر ریاستوں کا سفر تجارت بہت کم ہو جائے گا اور ہزاروں کلو میٹر سینکڑوں میں بدل جائیں گے اور کئی ماہ چند یوم بن جائیں گے۔ ہزاروں ڈالر اخراجات سینکڑوں ڈالر رہ جائیں گے اور مال بھی بروقت منڈیوں میں پہنچ کر مقابلہ کی فضا قائم کر سکتا ہے۔جرمنی اور سپین کو بھی سمندروں تک رسائی حاصل ہے امریکہ کو دنیا کے دو بڑے سمندروں کے ذریعہ دنیا بھر تک بحری راستوں کے فوائد حاصل ہیں۔ صرف روس ہی اپنے مخصوص جغرافیہ کی وجہ سے گرم پانی کی بندرگاہ سے طویل عرصہ تک محروم رہا ہے۔ گرم پانی کی بندرگاہ Warm Water Port تک پہنچنے کے لئے پچھلے دو سو سال میں روس نے بڑے جتن کئے ہیں۔ 1860ء میں روس نے ویلاڈی واسٹوک کی بندرگاہ پر جب قبضہ کیا تو بھی روس کو وہ فائدہ نہیں مل سکا جس کا وہ متلاشی تھا۔
اس صدی میں سوویت یونین کے تمام حریف ممالک امریکہ، برطانیہ اور دوسری طاقتوں کو سمندروں تک بھرپور رسائی حاصل تھی جب کہ سوویت یونین اس عرصہ میں گرم پانی کی کسی بندرگاہ تک پہنچنے کے لئے بھرپور کوششیں کرتا رہا ہے۔ اپنی معاشی بالادستی اور تجارت کو فروغ دینے کے لئے سوویت یونین جو اب ریشیئن فیڈریشن بن گیاہے کو گرم پانیوں کی ضرورت تھی۔

روس نے پاک چین اقتصادی راہداری میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے روس کی اس خواہش کا خیر مقدم کیا ہے۔ پچھلی صدی میں سوویت یونین نے گرم پانیوں تک رسائی کے لئے پرانے خواب کی تکمیل کے لئے افغانستان پر فوج کشی کی تھی۔سوویت یونین کی فوج افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد بلوچستان تک آنا چاہتی تھی تاکہ وہ گوادر تک رسائی حاصل کر سکے اور یہاں سے وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کا خواب پورا کر سکے۔پاکستان نے اپنے اتحادی ملکوں امریکہ، یورپ اور عرب اسلامی ملکوں کے تعاون سے سرخ فوج کے خلاف جہاد کی بھرپور حمایت کی تاکہ سویت فوج افغانستان میں قدم نہ جما سکے۔ اگر افغانستان پر اس کا قبضہ مستحکم ہو جاتا تو پاکستان اس کا ا گلا ہدف ہو سکتا تھا۔ پاکستان کے راستے وہ بحیرہ عرب تک پہنچ سکتا تھا۔ افغانستان میں سویت فوج کو شکست ہوئی دس برس تک افغانستان میں خون ریز جنگ کے بعد سویت فوج 1989 ء میں افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوئی۔

سی پیک منصوبہ کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اپنے اعلیٰ سطحی وفد کے دورہ گوادر کے بعد روس نے گوادر بندرگاہ کے ذریعے عالمی تجارت کیلئے پاکستان کو درخواست کی ہے۔ روس کے کسی اہم ادارے کے سربراہ کا 14 سال بعد پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا۔ روس عالمی تجارت میں اہم کردار ادا کرنے کی غرض سے گرم پانی تک رسائی چاہتا ہے اور گوادر پورٹ کے ذریعے عالمی تجارت کا خواہشمند ہے۔ روس کی جانب سے گرم پانی تک رسائی کی درخواست کے بعد پاکستان اورچین اس کے مندجات کو حتمی شکل دینے کیلئے معاملات طے کررہے ہیں۔ روس کے اعلیٰ سطحی وفد کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک کے مابین معاشی و اسٹریٹجک تعلقات کو آگے بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا جبکہ پاکستان نے روس کو گرم پانیوں تک رسائی دینے پر غور شروع کردیاہے۔ پاکستان’ چین اورروس کے اتحاد سے مستقبل میں ایشیائی خطہ دنیا کی تجارت کا سب سے بڑا مرکز ہوگا جس سے تمام ایشیائی ممالک مستفید ہوں گے۔

Syed Kamal Hussain Shah

Syed Kamal Hussain Shah

تحریر : سید کمال حسین شاہ