تحریر: شاہد شکیل خطرہ، سگنل، احتیاط، علامت، الارم ،نشاندہی ،جان لیوااور وارننگ جیسے الفاظ دنیا کی کئی زبانوں میں موقع کی نزاکت یا درپیش مسائل اور واقعات کو مد نظر رکھ کر مختلف انداز و اطوار سے ادا کئے جاتے ہیں کئی افراد ایسے الفاظ سننے کے بعد فوری طور پر ایکشن لیتے ہیں اور کئی انہیں بے وقعت اور بے معنی گردانتے ہوئے درگزر اور شاذ و نادر عمل کرتے ہیں لیکن بعد از قلیل مدت شدید نقصان اور پریشانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں ، کیونکہ انسان کی سوچ ،سماعت اور حس پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ان الفاظ کو اپنے نقطہ نظر سے کیسے دیکھتا ، پرکھتا اور محسوس کرتاہے مثلاًبچوں کی کئی عام لیکن مہلک بیماریوں کو غیر اہم اور نارمل سمجھتے ہوئے کئی والدین یہ سوچ کر در گزر کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں عام سا بخار ہے۔
بچے قے کرتے رہتے ہیں یا دانت نکل رہے ہیں اس لئے بخار ہوا ہے اور بچہ چڑ چڑاہو گیا ہے وقت کے ساتھ تندرست ہو جائے گا اور یہی والدین کی سب سے بڑی غلطی اور غفلت ہوتی ہے کیونکہ بچوں کا بخار یا قے کرنا معمولی سی بات ہوتے ہوئے بھی خطرے کی علامت ہے اور ایسی صورت میں فوری بچوں کے ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔والدین کے لئے پہلی نظر میں بچوں کا بخار،قے اور چڑ چڑا پن اتنی اہمیت نہیں رکھتا لیکن اگر فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ نہ کیا جائے تو یہ معمولی علامات اور بیماری بچے کی موت کا سبب بن سکتی ہیںوالدین اپنے بچوں کی عادات و اطوار کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اورمحسوس کرنے پر کہ بچہ جسمانی طور پر ایکٹیو نہیں ہے سستی چھائی ہے بے چینی محسوس کر رہا ہے۔
Fever
ایسی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا یا ہاسپیٹل جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کئی بار معمولی بخار یا ایک دو بار قے کرنے کے چند گھنٹوں بعد بخار خود بخود ختم ہو جاتا ہے جسم کے گرم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بخار ہے لیکن احتیاط لازمی ہے اور اس دوران اگر والدین محسوس کریں کہ بچے کی حالت نارمل نہیں بلکہ مزید بگڑ رہی ہے تو فوری قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں کیونکہ بچوں کی چیک اپ ایک سے زائد مرتبہ کروانا بہتر ہے نہ کہ انتظار کیا جائے بیماری خود آئی ہے اور خود بھاگ جائے گی۔بچوں کی صحت اور علاج کرنے والے ماہر جرمن ڈاکٹر کا کہنا ہے بچوں میں غیر معمولی علامات ظاہر ہونے پر پریشان ہونے کی بجائے فوری ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے ، مثلاً اگر بخار بدستور بارہ گھنٹے تک برقرار رہے تو ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور واضح طور پر وجوہات طلب کی جائیں۔
کیونکہ بخار کی علامت صرف جسم کا گرم ہونا یا بدستور رہنا ہی نہیں بخار کی وجہ سے بچوں کے کانوں کے اندرونی حصوں میں تکلیف ہونے کے ساتھ دماغی طور پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں یعنی انفیکشن کا خطرہ ہے،عام یعنی نارمل حالت کے علاوہ بچے میں چڑ چڑا پن نمایاں ہے اور بارہ سے چوبیس گھنٹے تک کمی واقع نہیں ہوتی یا بدستور قے جاری ہے یا پیٹ کی خرابی کے باعث پاخانے کا پانی کی طرح اخراج ہے تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کیا جائے کیونکہ زیادہ مقدار میں جسم کے پانی کا ضیاع بچوں کیلئے خطرے کا سگنل ہے ممکنہ طور پر معدے میں انفیکشن کا خدشہ ہو سکتا ہے،اگر بچے کانپنے یعنی کپکپی میں مبتلا ہوں تو یہ خطرے کا الارم ہے کیونکہ خاص طور پر اس صورت حال میں بچے اپنے حواس کھو دیتے ہیں ایسے لمحوں میں فوری ایمبولینس کو فون کیا جائے۔
Infection
کیونکہ کپکپی یا کانپنا سنگین بیماریوں میں سے ایک ہے جس کا تمام سسٹم دماغ سے منسلک ہوتا ہے بروقت امداد یا علاج نہ ہونے سے دماغی سوزش کا خطرہ اور بیکٹیریل انفیکشن ہو سکتی ہے ،بچے اگر اپنی من پسند غذا استعمال نہیں کر رہے اور بھوک نہیں لگتی تو یہ اچھی علامت نہیں ہے بالخصوص بارہ سے چوبیس گھنٹے میں اگر کھانا کھانے میں مشکلات پیش آرہی ہوں اور مشتعل ہو کر کسی بھی غذا کے استعمال سے انکار کرتے ہیں تو ممکنہ طور پر جسم کے کسی بھی حصے میں انفیکشن کا خطرہ ہوسکتا ہے علاوہ ازیں سانس لینے میں دشواری ہو خاص طور پر جلد یا ہونٹ نیلے ہو جائیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے، ڈاکٹر کا کہنا ہے اگر بچے کے سر پر چوٹ لگ جائے تو فوری طور پر ہاسپیٹل پہنچایا جائے کیونکہ بچوں کی کھوپڑی کی پلیٹس کمزور ہونے کے علاوہ مشترکہ طور پر ایک دوسرے سے پیوست نہیں ہوتیں جس کے سبب درمیانی حصے میں خلا ہوتا ہے اور چوٹ لگنے سے نرم ہڈی کے چٹخنے کا خطرہ ہونے کے ساتھ انفیکشن بھی ہو سکتا ہے۔
عام طور پر سر کی چوٹ کی علامات کچھ دیر بعد ظاہر ہوتی ہیں اور دوران چیک اپ ڈاکٹر ہی اندرونی چوٹ کے بارے میں مفصل اور واضح طور پر بتا سکتے ہیں کہ آیا چوٹ کتنی شدید ہے۔ڈاکٹر کا کہنا ہے بچوں کی بیماریوں کو کسی صورت میں غیر اہم نہ سمجھا جائے لاتعلقی ،غفلت یا کسی قسم کی معمولی غلطی سے بچے کی جان جا سکتی ہے صرف اس بات پر کہ بیماری خود آئی ہے اور خود بھاگ جائے گی اور دو دن میں سب ٹھیک ہوجائے گا ایسی غلطی کرنے سے گریز کیا جائے ،کیونکہ والدین اپنے بچوں کی حرکات وسکنات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ کس حالت میں وہ تندرست ہیں اور کب تکلیف میں مبتلا ہیں اس لئے والدین سے گزارش ہے کہ ایسے معاملات میں ٹال مٹول کرنا بچوں کی زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے ،ڈاکٹر سے رجوع کرنے پر اسے تمام حالات سے مکمل طور پر آگاہ کرنا لازمی ہے تا کہ وہ علاج کر سکے۔۔