جنگوں کی تاریخ کنگھالو یا آفاقی وارضی مذاہب کی تاریخ آپ کو معصوم علم کے پیاسے بچوں کے قتل عام کی ایسی بھیانک اورمذموم کاروائی نہ ملے گی۔بچوں کے چہروں اور سروں پر گولیاں برسائی گئیں۔ اساتذہ کو زندہ جلایا گیا۔خولہ کو بھی مار دیا گیا جو پہلے دن سکول آئی تھی اور حد تویہ تھی کہ عربی وفارسی بولنے والے یہ بھی کہہ رہے تھے کہ کلمہ پڑھو۔ اکیسویں صدی میں تو یہ اندوہناک کاروائی دیکھ کر دل التجا کرتاہے کہ یا خدا ایسے بے حس بے ضمیر لا مذہب لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں ؟لیکن ان میں اور ڈرون حملہ کرنے والوں میں بس اتنا فرق ہے کہ وہ نیٹ کے ذریعے معصوم بچوں کے لوتھڑے بکھرے ہوئے دیکھتے ہیں اور ان کذابوں نے برہنہ آنکھ سے دیکھے اور ان کے دل نہ پسیجے ۔کبھی کبھی ان بدقسمت انسانوں کی بدترین قسمت سے خوف آتا ہے اورکبھی سر سجدہ شکراداکرتا ہے کہ میرے خدا تیراشکریہ کہ میں ان ظالموں میں سے نہ تھا۔
سانحہ پشاور کو کم وبیش 96 گھنٹے گزرنے والے ہیں لیکن قوم آج بھی اسی طرح غمزدہ ہے ۔میری والدہ کہتی ہیں کہ ”میں اس واقعے کی رپورٹنگ پانچ منٹ سے زیادہ نہ دیکھ سکی کہ میرا دل پھٹتاتھا’ان ظالموں کو نیست ونابود کردیناچاہئے”۔جہاد اسلام کالازمی جز ہے لیکن مفتیان اسلام کافرض ہے کہ عوام کے دلوں میں ریاست کے فرائض اور احکام جہاد سے متعلق حقائق اتاردیں۔حکومت کا فرض ہے کہ مسالک کی بنیاد پر تقسیم مدارس پر پابندی عائد کرکے اسلام کی بنیاد پر ان کا نصاب ترتیب دیاجائے اور سائنسی علوم بھی لازم قراردیئے جائیں۔ایک صاحب کا فرماناہے کہ جامعہ حفضہ کو بند کیا جائے ۔ماناکہ انہوں نے نیک نیتی کی بنیاد پر کہاہوگالیکن درسگاہ کا ماحول اوراساتذہ ونصاب کی تبدیلی سے اس بڑی درسگاہ کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔
ضرب عضب کے دوران میڈیا ‘سیاستدانوں اور عوام کو یکجا ہونے کی سخت ضرورت ہے۔معصوم لہوکی تاثیر نے ہم سب کو یکجاکردیا ہے لیکن اب بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو تاویلیں تراش خراش کر پیش کرتے ہیں۔بھائی ہمیں اچھے طالبان سے کوئی دشمنی نہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں سے محبت ہے ۔ ہماری فورسز موجود ہیں’انکی موجودگی میں جہادی گروپوں کی ضرورت نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ اصحاب رسول کے دور خلافت میں نجی فورسز بھی تھیں ؟ہاں تھیں لیکن ان کو جہادی نہیں کچھ اور پکارا جاتا تھا یعنی حضرت عثمان و مولا علی کے قاتل۔
Islam
اگر کوئی اسلام سے محبت کرتاہے تو اس ضمن میں حکومت فورسز اور علماء سے مشاورت کے بعد عام معافی کا اعلان کرسکتی ہے تو ضرورکرے اور ایسے لوگ حکومتی سرپرستی میں اصلاح معاشرے کیلئے کام کریں مگر ان پر کڑی نظررکھی جائے جب تک مناسب سمجھاجائے۔اور جولوگ ہتھیارنہ پھینکیں انکے اورانکے حامیوں کے خلاف بلاتفریق کاروائی کی جائے ۔روس نے سکول پر حملے کے ملزم سات دن کے اندراندر لٹکا دیئے تھے گوکہ ہمارے پاس اتنی ٹیکنالوجی نہیں لیکن اب عمل ہوتانظر آناچاہیئے ۔جونہیں کرسکتا استعفی دے دے۔
اب مذمت کا دور ختم ہو چکاجب تک مکمل مرمت نہ کی جائے گی ‘کام نہیں بنے گا۔ تسلی بخش علاج ضروری ہوچکا اشدضروری۔اور حکومت کو چاہیئے کہ ان کے سرپرستوں کو بھی بے نقاب کرے ۔حیرت تو ایسے استعماری ‘سامراجی وظلمت سے بھرے چہروں مہروں سے ہوتی ہے جو دہشت گردی کی بنیاد ہیں ۔جن کی وجہ سے یہ وجود میں آئی اور آج وہ اسکی مذمت کرتے ہیں تو جتنادل دہشت گردوں کی کاروائیوں پر جلتاہے اتناہی ایسے جابروں کے مذمتی بیان پر کڑھتاہے۔ حدیث شریف کے مفہوم کے مطابق مسلمان کا خون حرمت کعبہ سے بڑھ کر ہے۔
Humanity
ایک اور حدیث کے مطابق ایک انسان کی جان بچاناپوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے ۔پھر یہ کون سادین ہے جو خون انساں کی ندیاں بہاکرطمانیت محسوس کرتاہے۔ان کی کوئی حد نہیں ‘کوہاٹی چرچ ہو یا سانحہ پشاور ڈرون ہو یا خودکش سب کا سدباب ضروری ہے۔آخر میں قارئین سے معذرت کہ میں اپنے ناقص علم کیمطابق بھی اس کالم کی ترتیب نہ رکھ سکا کہ قومی جذبات لفظوں کے محتاج نہیں ہوتے۔