وسیم چلا گیا

Waseem

Waseem

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان

موت برحق ہے، اسے کسی کو مفر نہیں،اللہ کے سوا ہر شے فانی ہے۔زندگی وموت صرف و صرف خدا کے اختیار میں ہے، موت کا اک دن معین ہے، انسان کے اختیار میں نہیں کہ وہ زرہ بھر بھی اس میں کمی وبیشی کر سکے۔تقدیر کے اپنے اٹل اصول ہیں،اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتا ،انسان کے پاس محدود اختیار ہیں، لیکن موت کسی میں امتیاز و تفریق روا نہیں رکھتی،بچے بوڑھے،جوان سب اس کی گرفت میں ہیں،جب چاہے فرشتہء اجل قفس عنصری سے کسی کی روح نکال لے۔رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے۔نے بھاگ ہے ہاتھ میں نہ پا ہے رکاب میں۔جانے والے کا کوئی نہ کوئی غم ضرور کرتا ہے۔دوست واحباب اور خاندان کے نزدیک مرنے والے کے لئے ہمدردی اور غم کے جذبات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں،مگر کچھ پیاروں کا اپنوں سے جدا ہونا نہ صرف نا قابل تلافی نقصان ہوتا ہے،بلکہ صدمات باقی زندہ رہنے والوں کے لئے مسلسل روگ بن جاتے ہیں۔

کسی خاندان میں ایسی اموات ایسے باصلاحیت نوجوانوں کی ہوتی ہیں،جو اپنی ظاہری وباطنی صلاحیتوں و خوبیوں کیوجہ سے نہ صرف خاندان بلکہ سماج کے لئے بھی باعث فخر ہوتے ہیں۔وسیم چوہان کابھی انہی خاص لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔وہ سوا چھ فٹ کا خوبصورت رعنا جواں تھا۔رنگ سفید اور چہرہ کتابی تھا،خوبصورت نقوش ا،ہنستا و مسکراتا ہوا چہرہ جاذبیت کی زندہ مثال تھا۔قدو و قامت میں تمکنت و وجاہت تھی۔طاقت وجوانی اور حسن میں فطرت نے کمال فیاضی کا مظاہرہ کیا تھا،مگر غرور وگھمنڈ کے بر عکس اعتدال و حسن سلوک اس کی شخصیت کے اوصاف نمایاں تھے،ہمیشہ ہر کسی سے خندہ پیشانی سے ملتا تھا، اسی بنا پر حلقہء احباب وسیع تھا۔مسکرااہٹ چہرے پر بکھر ی رہتی تھی ۔ہر بات میں مزاح کا پہلوڈھونڈھ نکالتا تھا۔

دوسروں کی دیکھ بھال کرنا،غور سے دوسروں کی باتیں سننا اور سنجیدگی سے صورتحال سے نمٹنا اس کے زمہ دار ہونے کا احساس دلاتی تھیں۔تہذیب وشائستگی کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتا تھا۔سب سے بڑی بات خوددار تھا۔کبھی احساس محرومی کا شکار نہیں ہوا ۔نا مساعد حالات میں اس نے گریجویشن کر لی تھی۔اپنی مدد آپ کے تحت بینک میں معقول ماہانہ مشاہرہ پر نوکری مل گئی تھی۔اپنی نئی گاڑی خرید لی تھی۔تین بچوں کا باپ تھا۔والدہ بیس سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گئی تھی ،جس کا دکھ ابھی تک وہ محسوس کر تا تھا۔والد صاحب اب بوڑھے ہوچکے تھے مگر ان کی خصوصی دیکھ بھال کرتا تھا۔سات بہن بھائییوں میں سب سے چھوٹا تھا ،سب اسے پیار کرتے تھے،مگر چھوٹا ہونے کے باوجود انتظامی امور میں سب سے بڑا بھی تھا،بلکہ یوں کہہ لیجیے ڈیڑھ سو کے خاندان کے کل افراد میں وہ سب سے زیادہ متحرک تھا،نظر اسی پر پڑتی تھی۔اس کی شخصیت کا سب سے دلچسپ پہلو دوسروں کیساتھ اس کا دوستانہ رویہ تھا۔

علم و ادب سے گہرا شغف رکھتا تھا۔نظریاتی بحشوں میں حصہ لیتا رہتا تھا۔جدید علمی ،سیاسی اور مذہبی نظریات کا بغور مطالعہ کرتا رہتا تھا۔مقامی سیاسی حالات کے جبر سے وہ رجعت پسند روایتی سیاسی جماعتوں کیساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا،کہتا تھاکہ یہ سب حالات کی مجبوری کی وجہ سے ہے۔کیونکہ ہمارا معاشرہ ابھی تک سیاسی و سماجی ارتقا کے اولین درجے پر ہے۔یہ ہمارا سماجی جبر ہے جس سے نکلنے کے لئے طویل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ترقی پسند نظریات رکھنے کے با وجودبہت بڑا مواحد تھا۔غیر ضروری رسوم و روایات اور بدعات کے سخت خلاف تھا۔

ایسا کبھی ہوا نہیں کہ ہم پاکستان گئے ہوں اور اسے طویل نشست وبرخاست نہ ہوئی ہو۔وہ اگر میرپور ہو تاتو ہماری آمد کا سنکر سیدھا اسلام آباد آجاتا ایک دو دن ضرور ہمارے ساتھ گزارتا۔ہم گاوئں میں جاتے تو وہاں مسکراتا ہوا پہنچ آتا۔گئے رات تک طویل گفتگو ہوتی۔اسلام آباد میں میرے دوستوں کیساتھ بھی اسکی نشست وبر خاست ہوتی تھی۔بوڑھے پروفیسر اور دانشور حضرات بھی اسے واقف تھے۔اس کا حلقہ احباب گائوں سے لیکر شہروں تک پھیلا ہوا تھا۔جب اس کی نماز جنازہ ہوئی تو غیر متوقع طور پر لوگوں کا جم غفیر اکھٹا ہوا۔برطانیہ سے خاندان کے افراد ایک مہینہ میں دو بار اس کی عیادت کے لئے اسلام آباد گئے،اور آخری دفعہ انہی کے ہاتھوں میں اس کی تجہیز و تکفین ہوئی۔

ہنستا کھیلتا نوجوان چونتیس سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گیا اور سارے خاندان کو سوگوار چھوڑ گیا۔عام سی سانس کی بیماری میں مبتلا ہوا بات وینٹی لیٹر پر پہنچی،جہاں ہر دن کا پچاس ہزار خرچہ ہونے لگا ،عزیز و اقارب نے خرچہ اٹھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔تقدیر کو تدبیر کے برابر نہ کرنا اے رفو۔گو سوزن تدبیر عمر بھر سیتی رہے۔ اس تجربے سے علاج و معالجے کی سہولتوں کے فقدان سے ملک کے سارے نظام پر سے اعتماد اٹھ گیا،جہاں علاج کی پہلے تو سہولتیں موجود نہیں ہیں اگر علاج ہے تو وہ انسانوں سے بھی زیادہ مہنگا،وہاں نہ دوائیں اثر کرتی ہیں اور نہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔

قصوروار عوام ہیں یا حکمران .جہاں کتنے حسیں،خوبرو مائوں کے وسیم جیسے بیٹے معمولی سا علاج نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں،وسیم کی طرح سب کا خاندان متمول تو نہیں ہوتا۔وسیم کی غیر متوقع موت خاندان کے لئے ایسا المیہ ہے جس کو کوئی نہ بھلا سکے گا اور آئندہ آنے والے اس کا حوالہ دیا کریں گئے۔مگر بیوی بچوں کو وہ صدمہ دے گیا اس کی کس کو خبر۔تارہ ٹوٹتے سب نے دیکھا مگر یہ نہ دیکھا ایک نے بھی۔کس کی آنکھ سے آنسو ٹپکا،کس کا سہارا ٹوٹ گیا۔اب وسیم کبھی پلٹ کر نہیں آئے گا،مگر ہم بھی اس کو کبھی بھولیں گے نہیں۔

چٹھی نہ کوئی کوئی سندیس،جانے وہ کونسا دیس ،جہاں تم چلے گئے اس دل پر لگا کے ٹھیس،جانے کونسا دیس،جہاں تم چلے گئے،اک آہ بھری ہو گی،ہم نے نہ سنی ہو گی،جاتے جاتے تم نے آواز تو دی ہو گی،ہر وقت یہی ہے غم،اس وقت کہاں تھے ہم،تم کہاں چلے گئے،ہر چیز پہ اشکوں سے لکھا ہے تمہارا نام،یہ رستے یہ گلیاں تم کو کر سکے نہ سلام،اب یادوں کے کانٹے اس دل میں چھبتے ہیں،کہاں درد ٹھرتا ہے نہ آنسو رکتے ہیں،تمہیں ڈھونڈھ رہا ہے پیار،ہم کیسے کریں اعتبار،تم کہاں چلے گئے۔

Prof. Hussein Chuhan

Prof. Hussein Chuhan

تحریر : پروفیسر محمد حسین چوہان