اپنی بربادی کا کچھ جشن منایا جائے اس کا اجڑا ہوا چہرہ نہ دکھایا جائے مجھ کو احساسِ ندامت سے بچایا جائے دور رہنا بھی میری جان اگرچہ ہے محال کیا کریں سامنے تیرے بھی نہ آیا جائے خواب در خواب تیرا سانولا پیکر ابھرے نقش در نقش زمانے سے چھپایا جائے چاند کے پار بھی تنہائی ہی تنہائی ہے ایسی خوہش کیلئے دل نہ جلایا جائے بعد مدت کے کسی شوخ کی یاد آئی ہے کیوں نہ سوئے ہوئے جذبوں کو جگایا جائے جام و مِینا سے گَلے مِل کے سرِ رہگزر اپنی بربادی کا کچھ جشن منایا جائے آرزو ہے کہ زمانے کی نگاہوں سے پرے آخری بار اسے پاس بٹھایا جائے وقت کے پائوں کسی طور سنبھلتے ہی نہیں اِس کو بھی زہر بھرا جام پلایا جائے تیرے اس طرزِ تغافل کی قسم تو ہی بتا روٹھنے والے تجھے کیسے منایا جائے کوئی تو ہو جو ہمیں اپنا بنا لے ساحل کوئی تو ہو کہ جِسے اپنا بنایا جائے