ایک محاورہ ہے ،نیت صاف ،منزل آسان ،مادر وطن کی محافظ مسلح افواج پاکستان کی جمعیت جہاں دشمنوں کیلئے نیندیں اُڑانے کی سبب ہے ،وہیں وطن دوستوں وخیرخواہوں کیلئے تحفظ جان و مال ،عزت و آبروکے احساس سے لبریز ہے ۔اور اطمینان قلب کاباعث بھی ۔بارہ سال پہلے جب شہدائے وطن میڈیا سیل قائم کیا تب سوشل میڈیا اس قدر ”بے قابو”نے ہوا تھا ۔کہ ملک و قوم کے اتجماعی و اہم نوعیت کے اُمور کو یوں اُچھالا اور شکلیں بگاڑکر پیش کیا جانا کوئی معمہ نہ ہوتا۔تب پھربھی کچھ احساس ،کچھ لحاظ باقی تھا۔ٹیلفون وفیکس کا دور تھا ۔اور سوشل میڈیا پر فیس بُک سمیت دیگر ذرائع بھی تب آزمائش کی شکل میں ڈھلے نہیں تھے ۔البتہ اکا دکا واقعات کی باز گشت ضرور سنائی دیتی تھی۔مجھے محسوس ہورہا تھا کہ آگے چل کر ”سوشل میڈیا”قومی رائے عامہ کیلئے کتنا بڑا چیلنج بن جائیگا۔چنانچہ شہدائے وطن میڈیا سیل اے کے زون کے تحت مادر وطن کے بہادر سپوتوں کی قربانیوں سے نئی نسل کو روشناس کرانے کیلئے موجودہ نسل کے بڑوں(اقتدارواختیارات کے حاملین) کو اُنکے حقیقی فرض کی جانب متوجہ کرنے کا ارادہ کیا۔اس ضمن میں ابتداء میں شہید وطن نائیک سید محمد حسین شاہ تیموری بٹالین آزادکشمیررجمنٹ کے نام سرکاری تعلیمی ادارہ منسوبی کیلئے فائل وزیراعظم وقت سردار یعقوب خان کو اُسوقت دی ۔جب اُنھوں نے صحافیوں کے اعزازمیں عشائیہ کا اہتما کیا ہوا تھا۔جوکہ ایک طرح سے تعاورفی نشست بھی تھی۔وزیراعظم وقت فائل پر کام نہ کرسکے ۔
کہ تب ریاست میں وزیراعطم وزیراعظم کا کھیل چل رہا تھا۔جسکے اختتام تک پانچ سالہ مدت میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوچکے تھے ۔بہرحال شہدائے وطن کے ناموں سے سرکاری تعلیمی ادارء منسوبیت کو ترجیح دینے کا واحد مقصد یہ تھا ۔کہ ابتداء سے نئی نسل کو ”انتخابی سیاست”کی نحوست سے بچاتے ہوئے مسلمہ اجتماعی قومی نظریہ کی جانب راغب کیا جائے ۔خاص کر مسلح افواج پاکستان کیساتھ ذہنی و فکری ہم آہنگی پیدا ہو۔تاکہ ازلی دشمن ہندوستان مستقبل مین جب کبھی کوئی ایسی سازش چلنے لگے جس سے ایک بار پھرمشرقی پاکستان والانسخہ(مکتی باہنی)استعمال کرنا چاہے تو اُسے ہماری نئی نسل کو ورغلانے ،بہکانے میںسخت مشکل کا سامنا کرنا پڑے ۔اور پھر ناکامی بھی دشمن کا مقدر بنے ۔اس حوالے سے ذاتی طور پر یہ خیال تھاکہ سرکاری تعلیمی ادارے میں جب کسی شہید کاتعارف ، کرداروکارنامے بمعہ تصویربڑے سائن بورڈ لہ شکل میں آویزاں ہونگے تو زیرتعلیم طلبہ و طالبات میں فوج ،شہداء (وردی)سے اُنس پیدا ہوگا۔
جب شہید سے منسوب تعلیمی ادارے میں قومی /ریاستی اہمیت کے دنوں (جیسے یوم پاکستان ،یوم آزادی ،یوم دفاع ،یوم شہدائے جموں ،یوم قرادادالحاق پاکستان وغیرہ)پر خصوصی تقریبات کاتسلسل سے اہتمام ہوگا ۔تو نئی نسل کو فکری و نظریاتی تربیت ملے گی ۔اور نئی نسل میںمادر وطن کے سپوتوں جیسا کردار اُبھرے گا ،نکھرے گا۔اور جب سپاہیانہ کردار شخصیت کا حصہ بن گیا ۔پھر ہندوستان ہی نہیں دُنیا کی کوئی بھی طاقت ہماری نئی نسل کو زندگی کے کسی مرحلہ پر دبا اور مٹانہیں سکے گی ۔نہ ہی ورغلا ،بہکاسکے گی۔۔۔۔۔بہرحال نیت صاف ،منزل آسان والا محاورہ صادق آیا ۔اور پھرپاک افواج نے ملک کے اندر غیرواضع شکل والے دشمن کیخلاف جنگ لڑنا شروع کی ۔تو یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ ”شہدائے وطن ”کے حوالے سے ایک دن مخصوص کردیا جائے ۔جس دن پاک فوج شہیدوں کے لواحقین و متعلقین سکو مدعو کرے ۔اور سول و فوجی قیادت ،نمائندہ و سرکردہ عوامی شخصیات بھی تقریبات میں آئیں ۔جہاں شہداء کو خراض عقیدت پیش کیا جائے ۔جونہی 30اپریل2012کو پہلا یوم شہداء منایا گیا۔تو راقم نے عسکری قیادت کو دستیاب ذرائع سے مشورہ دیا کہ کرگل و گیاری سے پہلے والے شہیدوں کے لواحقین کو بھی بلایا جانا چاہیے ۔(جنہیں ابتدائی طور پر نہیں بلایا گیاتھا)30اپریل2013میں یوم شہداء پربطورجرنلسٹ شرکت کی دعوت ملی ۔تب میجرفضل نامی ایک باکمال افسرمظفرآبادمیں پوسٹ تھے ۔جنہوں نے آئی ایس پی آرکی ترجیح کیمطابق بہت کم عرصہ میں ریاستی میڈیا کیساتھ بہترین تعلقات بنالئے ۔
وہ بھلا افسر صحافیوں کیساتھ ممکنہ حد تک تعاون کیلئے بہت مستعد رہا۔اُس بار بھی لواحقین شہداء دیگر شرکائے تقریب کی طرح پہلے ہی بیٹھا دئیے گئے تھے ۔جسکے بعدجی او سی میجرجنرل سید نجم الحسن اور مہمان خصوصی وزیراعظم وقت چوہدری عبدالمجید نے آمد کے بعد لواحقین شہداء کیلئے مخصوص نشستوں پر جاکر حال احوال دریافت کیا۔جی او سی مری مہمانوں کی پہلی صف کی جانب آئے سب سے مصافحہ کیا ۔آئی ایس پی آر کے انچارج افسر میجرفضل نے پہلی صف میں جناب سلیم اختر پروانہ ،سرداردل پذیرعباسی صاحب اور راقم سے فرداََفرداََتعارف کروایا۔ جب اُنھیں بتایا کہ مجھے لواحقین شہداء والی طرف ہونا چاہیے تھا۔تو میجرفضل کہنے لگے ۔ہمیں معلوم نہ تھا ۔آئندہ خیال رہے گا۔۔۔اس طرح 2013میں ہی یوم دفاع ّچھ ستمبرپر اسٹیشن ہیڈکوارٹرزآدیٹوریم میں منعقد ہ تقریب میں شرکت کی خصوصی دعوت ملی ۔جبکہ میرے علاوہ سردارذوالفقار علی ،امتیاز اعوان ،عارف عرفی اسلم میرودیگرکوریج کیلئے مدعوتھے ۔ مجھے وہاں اظہار خیال کاموقع دیا گیا۔اسٹیشن کمانڈر برگیڈئیراعجاز الرحمان تنویر،کرنل نوید وڑائچ(آئی ایس پی آر)کرنل زاہد عارف عباسی ،میجراحمد(بعد میں کرنل)سمیت شرکاء نے بہت سراہا ۔اسٹیشن کمانڈر برگیڈئیراعجاز الرحمان تنویرنے شہدائے وطن کے ناموں سے سرکاری تعلیمی ادارے منسوبیت کی فائیلوں پر کام کی سست روی کی نشاندہی پر اپنے حصے کا کردار ادا کیا۔
اسی طرح جی او سی میجرجنرل سید نجم الحسن سے براہ راست رابطے سے شہدائے وطن سے متعلق اُمور پر حوصلہ افزا پیش رفت ہوتی رہی۔آج جبکہ آزادکشمیرمیں درجنوں تعلیمی ادارے شہداء کے ناموں سے منسوب ہیں ۔بے شک کام کی رفتار دم توڑتی محسوس ہوتی ہے ۔کہ ”انتخابی سیاست”میں وطن اور دفاع کو وہ اہمیت حاصل نہیں رہتی ۔جوکہ ہونی چاہیے ۔پھر بھی بہتری کی اُمید رکھنی چاہیے ۔2015کے بعد یوم شہدائے پاکستان میں حسب سابق مدعو کیا جاتا رہا۔تاہم جن فہرستوں کے تحت ہرسال دعوت دی جاتی رہی اُن کی صحت اب تک غیرتسلی بخش رہی ۔اب جبکہ آزادکشمیرمیں قابل ذکرادارے منسوب ہیں ۔وہاں محکمہ تعلیم کا کردار قابل احتساب بھی ہے کہ شہیدوں کے ناموں سے ادارے منسوب ہونے کے باوجود وہ مقاصد پورے نہیں ہورہے جنکے لئے یہ کوششیں کی گئیں ۔یعنی قومی سوچ و نظریہ کا پرچار و اولیت کا اظہار۔۔۔۔گذشتہ تین سال سے برگیڈئیرنجم سلیم شہید کی خدمات و قربانی کی یاد میں دارالحکومت کا کوئی اہم مرکز منسوب کرنیکا پر متوجہ کررہے ہیں۔کہ شہریوں کی اکچریت برگیڈئیرنجم سلیم کو فقظ اس حوالے سے جانتی ہے کہ شوکت لائنزکی جانب آتے جاتے ایک مقام پر چھوٹا سا بورڈ لگا ہے ۔جس پر اس شہید کا نام لکھا ۔اللہ اللہ خیرصلہ۔۔۔۔اس بار ایک منظم سرگرمی کے ذریعے بھی مطالبہ کیا ہے ۔جسکے ابھی تک پذیرائی نہیں ملی ۔کہ اللہ نے توفیق دی کہ ایک اور شہید وطن میجرمحمد کاظم شہید (ستارہ جرأت)کی یاد میں13اگست کو سیمینارکا انعقادکرکے آزادحکومت سے، دارالحکومت میں سرکاری تعلیمی ادارہ شہید کے نام منسوب کرنیکا مطالبہ کردیا ہے ۔اس سرگرمی کے مہمان خصوصی چیئرمین وزیراعظم معائینہ و عملددرآمد کمیشن جناب زاہد امین تھے۔
اُنھوں نے یقین دلایا کہ وزیراعظم سے بات کرونگا،جلد شہید میجرکاظم کے نام سرکاری تعلیمی ادارہ منسوب ہوجائیگا۔اس موقع پرخطاب کرتے ہوئے شہدا کے جسد خاکی آنے پراُنھیں آزادحکومت/انتظامیہ کی سطع پرباوقار انداز میں وصول کرنے کی روایتی نہ ہونے پر دُکھ کا اظہار بھی کیا۔اور اسے انتخابی حلقہ جات کے منتخب حکومتی نمائندوں کی عدم دلچسپی لمحہ فکریہ قراردی ۔اور کہا کہ راجہ فاروق حیدر خان شہداء کے وارث ہیں، اس لئے جلد کسی ایک معتبر تعلیمی ادارے کو شہید میجر محمد کاظم کے نام سے منسوب کریں گے، کشمیر کی آزادی مضبوط و مستحکم پاکستان سے ہے، شہداء کے گھرانوں کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا، میجر محمد کاظم سمیت تمام شہداء ہمارا فخر ہیں، سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے شہدائے وطن میڈیا سیل کے چیئرمین نے میجرمحمد کاظم شہید کی خدمات و قربانی سے متعلق مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالی ۔اوربہادری شجاعت کے اعتراف اُنھیں وقت کے صدرجنرل ایوب خان نے اپنے ہاتھوں ستارہ جرأت سے نوازے جانے کو ایک منفرد اور قابل فخر تاریخ قرار دیا ۔ اور بتایا 1971میں مشرقی پاکستان میں خدمات کی انجام دہی کررہے تھے ۔جب مکتی باہنی کے ذریعے پاکستان توڑنے کی سازش پر عمل جاری تھا ۔ایسے وقت میں میجرمحمد کاظم نے آخری سانس تک لڑنے کا ارادہ کیا ۔اور دشمن کو ناکوں چنے چبواتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔جسکے اعتراف میں پاکستان نے دوسری بار بعد ازشہادت بھی ستارہ جرات سے نواز اگیا۔جبکہ اسوقت آزادکشمیررجمنٹل سنٹرمیں شہید کے نام آڈیٹوریم منسوب ہے۔
قارئن! زاہدامین واقعی ہی بڑے انسان ہیں جنہوں نے میجرمحمد کاظم شہید کی یادمیں منعقدہ سیمینارمیں فراخ دلی سے شہدائے وطن میڈیا سیل اے کے زون کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایاکہ کسطرح آغا سفیرحسین کاظمی(راقم) نے شہداء کے خاندانوں تک ہمیں پہنچانے میں کردار ادا کیا وہ لائق تحسین ہے۔اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ شہدائے وطن کے بچوں کو سرکاری نوکری دینی چاہیے ۔ اوربتایا نوکریوں کے لیے کوٹہ مقرر کروانے کے لیے تحریک کر رہے ہیں۔شہداء کے مزارات تک پکی سڑکوں کی تعمیر کے لئے لوکل گورنمنٹ مخصوص فنڈ مختص کرے ۔جناب زاہد امین کی سیمینارسے خطاب میں کہی باتیں جہاں وزیراعظم راجا فاروق حیدرخان کی نیک نامی کاایک سبب بن رہی تھیں ۔وہیں ایک مُحب وطن اور باوقار شخصیت کی عکاس تھیں۔۔۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم راجا فاروق حیدرخانکب برگیڈئیرنجم سلیم شہید ،میجرمحمدکاظم ‘شہید”کے نام تعلیمی ادارے منسوب کرتے ہیں۔رواں دورحکومت میں شہداء کے ناموں سے کئی مقامات پرتعلیمی ادارے منسوب ہوئے ۔پھر سکوت ۔لیکن ایک کریڈٹ تو وزیراعظم کے حصے میں آیا ہے جو پہلے کسی اور کا نہیں جب سے آزادکشمیرمیں پاک فوج کے شہیدوں کی قبروں پرآرمی چیف اور دیگرکمانڈرزکی جانب سے پھولوں کی چادریں چڑھانے کی روایت چل رہی ہے ۔وہاں آزادحکومت کی جانب سے پھولوں کی چادرموجود نہیں ہوتی تھی ۔لیکن جناب زاہد امین نے چیئرمین وزیراعظم معائینہ و عملدرآمد کمیشن کے طور پر شہدائے وطن کے حوالے سے جس مستعدی کا مظاہرہ کیا ہے ۔اور آج ہر شہید کی قبرپر چادر پہنچتی ہے تو یہ کریڈٹ وزیراعظم کا ہے ۔جنہوں نے چیئرمین کمیشن کے صوابدیدی منصب کو پہلی بار زاہد امین صاحب کی شکل میں وقار بخشا ہے ۔ہمیں یقین ہے کہ وزیراعظم کی جتنی نیک نامی مذکورہ صوابدیدی عہدے پر فائز شخصیت کیوجہ سے نصیب ہوئی ہے ۔کسی دوسرے صوابدیدی عہدے بارے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔مگر بات وہی ہے نیت صاف ،منزل آسان ۔۔۔اور ہماری منزل قربانیاں دینے والی کی عزت کرنا سیکھنا ہے ۔اور یہ منزل مل کررہیگی ۔انشاء اللہ ۔۔۔جس طرح میجرمحمد کاظم شہید نے ااخری سانس تک جنگ لڑنے کا سپاہیانہ فیصلہ کیا ۔ہم بھی اسی فیصلہ کی تقلید کرتے ہوئے منزل کی جانب پیش قدمی جاری رکھیں گے ۔بے شک کوئی کاریگر خفا ہی کیوں نہ ہو۔