ملکی صنعت، معیشت کی بحالی اور روپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے پالیسی ساز اداروں، حکومت اور عوام کا ایک پیج پر جمع ہونا بہت ضروری ہوگیاہے جس کے لیے صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی کے بیان نے جزبہ حب الوطنی سے سرشار پاکستانیوں کا جزبہ پھر سے بیدار کردیاہے ،جبکہ حکومت کی طرف سے متعارف کروائی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں ملک کی معیشت میں نمایاں بہتری دیکھنے کو مل رہی ہے گو کہ ہر چیز کا رزلٹ فوری نہیں ہوتا مگر اس ملک کے معاشی دانشوروں نے آنے والے دنوں میں معاشی بہتری کے لیے پاکستانیوں کو معیشت کی بہتری کی نوید سنا ڈالی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے ڈالر کے وقتی بڑھاؤ پر قوم کو تسلی دی ہے کہ یہ سب کچھ عارضی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ملک میں کاروباری سہولتوں میں اضافے کے زریعے تاجروں اور صنعت کاروں کو بھرپور مواقع فراہم کرنے کا بھی عندیہ دیدیا ہے جسے تاجر برادری کے حلقوں نے مثبت انداز میں سراہا ہے۔
ماضی کی صورتحال کو دیکھیں تو یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ قوم نے کس طرح سے مشکل وقت کاٹاہے پوری قوم کو جھوٹ کے اندھیروں میں رکھاگیا وزیراعظم عمران خان نے آتے ہی جو سچائی اور اصل حقیقت ہے اس پر سے پردہ اٹھادیاہے غیر ضروری اخراجات ختم کرکے وزرااور مشیروں کی عیاشیوں کا خاتمہ کردیاہے اور اس سچ سے حکومت کا آغاز کیا کہ ہم چاہے کتنی بھی سختیاں جھیل لیں مگر ہم مزید غیر ملکی قرضوں سے اپنی قوم کو نہیں پالیں گے بلکہ آزادی اور خودمختاری کے لیے ہر مشکل کا مقابلہ مل کرکرینگے موجودہ حکومت کے چند روزقبل ہی سو دن مکمل ہوئے ہیں ناقدین نے اس پر واویلا شروع کیا ہواہے کہ ان سودنوں میں شاید حکومت عوام کے لیے کچھ نہ کرسکی ہے جب کہ جن لوگوں نے یہ شور شرابا ڈال رکھاہے آج سے تین ماہ قبل ان ہی لوگوں نے اس ملک کا یہ حال کیا تھا آج وہ اپنی کئی ادوار کی حکومتوں اور ان میں کی جانے والی عیاشیوں کا ملبہ جمعہ جمعہ چار دن کی حکومت پر ڈال کر بری الزمہ ہونے کی کوششیں کررہے ہیں قوم یہ جان چکی ہے کہ عمران خان نے اس قوم کی آنکھوں سے جن تلخ حقیقتوں پر سے پردہ اٹھایا ہے۔
اس پر یقینی طور پر اب پاکستانی عوام کی آنکھیں کھل جانی چاہیے کہ ماضی میں کس کس انداز میں اس ملک کی بڑی جماعتوں نے ملکی معیشت کے ساتھ کھلواڑ کیا اور قومی خزانے کے ساتھ غیر ملکی قرضوں پر کس طرح سے اپنے اور اپنے بچوں کے کاروبار کو پروان چڑھایا گیا،سابقہ حکومت یہ بات نہیں جانتی تھی کہ عوام کو وقتی جھانسے دیکر یہ کبھی اس قوم کے لیے دیرپا خوشی کا باعث نہیں بن سکتے ،تحریک انصاف کی حکومت سے قبل جو بھی حکومت آئی ہے اس نے یہ ہی کہاہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس لیے ہے کہ ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں اپنی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لیے ایسا کررہے ہیں مگر یہ پہلی حکومت ایسی ہے جس کے صدر مملکت اور خود وزیراعظم نے روپے کی قدر کی اہمیت کو محسوس کیااورروپے کی قدر کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا اعلان کیا،ماضی میں دو روپے کی تندوری روٹی بیچنے کا اعلان کرکے اروبوں روپے کا چونا لگایا گیا۔
لیپ ٹاپ اور رنگ برنگی ٹرینوں سمیت برجوں اور انڈر پاس کے نام پر اس ملک کے خزانے کو خالی کیا گیا،وزیراعظم عمران خان نے ایک اچھا کام یہ کیاکہ آتے ہی قوم کو یہ بتادیا کہ اس ملک کے خزانے میں کچھ نہیں اور یہ کہ سابقہ حکومت نے کس کس انداز میں غیر ملکی قرضوں سے قوم کے غریبوں کو چھوڑ کر اپنی نسلوں کی ابیاری کی ہے ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی معیشت پر گہری نظر رکھتے ہیں ہمیں انہیں کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور جو انہوں نے مشورہ دیاہے اس پریکسوئی کے ساتھ عمل درآمد کرنا چاہیے ،لہذاقوم کو یہ تہیہ کرلینا چاہیے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم لوگ صرف پاکستانی پروڈکٹس ہی خریدیں گے ،کیونکہ معاشی خوشحالی اور روپے کو مستحکم کرنے کے لیے صدر مملکت کے اس مشورے کوپوری قوم ایک مہم کا رنگ دے کر ایک سچا پاکستانی ہونے کا ثبوت دے سکتی ہے۔
ماضی کی حکومتوں میں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے درآمدی اشیا پر بہت زیادہ انحصار کیا جاتارہاہے جب مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ ہواتو اس وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پچھلے چودہ سالوں میں تقریباً 500ارب ڈالر کی چیزیں دنیا بھر سے خرید چکاہے یعنی پاکستانی سالانہ چار ارب ڈالر کا سامان باہر کا خرید رہی ہے ،گزشتہ حکومتوں میں ریکارڈ انداز میں اربوں روپے کی تو گاڑیاں باہر سے منوائی جاتی رہی ہیں اس میں اگر ہم بھارت کی مثال نہ دے سکے تو یہ درست نہ ہوگا بھارتی معیشت کی یہ خاصیت ہے کہ وہ میڈان بھارت پر مکمل یقین رکھتا ہے وہاں کی حکومت کی کامیابی ان کی عوام کا حکومت کے ساتھ تعاون کرنا ہے جہاں گزشتہ حکومت کے شاہانہ انداز کو برقرار رکھنے کے لیے اربوں روپے کی گاڑیاں دنیا بھر سے خریدی گئی وہاں بھارت میں اگر دیکھا جائے تو وہاں کی حکومتی مشینری کا تمام تر کاروبار ان کی اپنے ہی ملک کی بنائی گئی گاڑیوں پر چلتاہے ،مگر ہم پاکستانیوں کی یہ فطرت بن چکی ہے کہ ایک پرفیوم جو پاکستان میں بنتا ہے اور جس کی پاکستانی قیمت 500 روپے ہے اس کی نسبت ہم کسی اور ملک کی پراڈکٹ یعنی وہ ہی پرفیوم اور وہ ہی خوشبو والا پرفیوم 500کی بجائے 800روپے میں خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان مصنوعات کی بے قدری ہوتی ہے بلکہ اس سے ملکی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے کیاکمی ہے ہمارے ملک میں ہاں یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک میں بننے والی تمام پروڈکٹس کے معیار کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنائیں۔
یعنی جہاں ہم اشیائے پرتعیشں کی درآمد کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں وہاں یہ ہی چیزیں اپنے ہی ملک سے معیاری انداز میں خریدی جاسکتی ہے جب فارمولہ ایک ہے تو پھر پاکستانی اشیاء ہی خریدی جائیں اس سے قبل ہما رے یہاں جو بین الاقوامی اشیاء خریدنے کا رحجان ہے اس کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنی مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے پر بھی توجہ دینگے ، ان تمام باتوں میں جہاں ڈالر کی اڈان کا معاملہ ہے ا س میں گزشتہ حکومت کو معلوم تھا کہ اس بار تو کیا اگلی دو بار بھی اب ان کے اقتدار کا چانس نہیں ہے اس لیے انہوں نے جاتے جاتے کچھ ایسے گھناؤنے کھیل کھیلے کہ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو ان تمام رکاٹوں سے سے گزرنا پڑا جو مسلم لیگ ن کی حکومت نے ان کے راستے میں کھڑی کی تھی۔
آج ڈالر کی صورتحال لازماًتشویشناک ہوسکتی ہے مگر کوئی بھی صاحب عقل آدمی یہ بات ضرور جانتا ہوگا کہ پاکستان کو اس وقت گزشتہ حکومت کی جانب سے چڑھائے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی ڈالرز ہی چاہیے اور ملک میں ڈالر کی کمی اس کی قدر میں اضافہ کرتی ہے جس سے ڈالر تو مہنگا ہوجاتاہے مگراس عمل سے روپے کی قدر کم ہوجاتی ہے مگر قوم کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ حکومت ابھی نئی نئی ہے مشکل وقت ہے تو جلد ہی گزر بھی جائے گا اور وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی یقین دلادیاہے کہ مستقبل میں ملک میں ڈالر کی کمی نہیں ہوگی جبکہ وزیرخزانہ اسد عمر نے بھی اس اعتماد کا اظہار کیاہے کہ ان کے پاس اب آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے لہذا عوام اب جہاں اس بات کی تسلی رکھے تو وہاں انہیں جلد از جلد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی اس مہم کو بھی آگے بڑھانا ہے کہ اب وہ صرف اور صرف میڈ ان پاکستان پر ہی انحصار کرینگے۔ ختم شد