تحریر : عنایت کابلگرامی ہم انسانوں پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کی برسات کا سلسلہ سالہ سال جاری رہتا ہے،مگر کچھ نعمتیں وہ ہیں جن پر انسانوں سمیت تمام جانداروں کی زندگی کا دارومدار ہیں اللہ تعالیٰ کی انہی نعمتوں میں سے ایک نعمت پانی ہے۔ پانی پر حیات انسانی کا دارومدار ہے۔ روئے زمین پر سلسلہ حیات کا آغاز پانی ہی کے ذریعہ کیاگیا۔ ارشاد ربانی ہے اور ہم نے ہر جاندارکو پانی میں سے پیدا کیا۔ نیز ایک اور جگہاللہ تعالیٰنے پانی میں حیات کے وجود کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرمایا: اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو پیٹ کے بل رینگتے ہیں بہت سے ایسے ہیں جو دوپیروں پر چلتے ہیں اور بہت سے چار پیروں پر(النور)۔ پانی دراصل خدا کی رحمت ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں اسے رحمت سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا : اور وہی (خدا ہے) جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری دینے کے لئے ہوائیں بھیجتا ہے (الفرقان)۔ پانی انسانی زندگی کا لازمہ ہے۔ اس سے جہاں سیرابی حاصل ہوتی ہے وہیں کاشت اور غلہ اناج کی پیداوار کے لئے بھی پانی ناگزیر ہے۔
انسانی و حیوانی غذا کا سارا دارومدار پانی پر ہے۔ جو علاقے قلتِ آب سے دوچار ہوجاتے ہیں وہاں غذائی بحران کا اندیشہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح طہارت اور صفائی کا سارا نظام پانی ہی سے وابستہ ہے۔ تعمیرات کا سلسلہ جو جدید دنیا میں دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ صنعتوں کا وجود بھی پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ پانی کی اس اہمیت کی وجہ سے ہر دور کے حکمرانوں اور بادشاہوں نے تالاب اور کنوؤں کی شکل میں ذخائر آب کو فروغ دینے کا اہتمام کیا ہے۔ ویسے انسان عامہ کے بے شمار کام ہیں لیکن ان میں کنوؤں کی کھدوائی اور بورویل کی تنصیب کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ احادیث شریفہ میں پانی پلانے اور صدقہ جاریہ کے طورپر کنووئیں کھدوانے کے بڑے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ تاریخ انسانی میں وہ حکمراں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے جنہوں نے مخلوق خدا کے لئے پانی کی سہولتیں فراہم کیں۔ جدید صنعتی انقلاب نے پانی کی ضرورت اور بڑھادی ہے۔بیشتر صنعتوں کا دارومدار پانی پر ہے۔ پانی کی اسی ناگزیر یت کے سبب ہر دور میں پانی کے لئے تنازعات ہوتے رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پانی کے لئے تنازعات کی تاریخ پانچ ہزار سالہ پرانی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف آبی ذرائع کے حوالے سے عالمی تنازعات کا سلسلہ ہے بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل کی بڑی جنگیں پانی کے لئے ہوں گی۔ایک طرف انسانی آبادی کے لئے پانی ناگزیر ہے تو دوسری جانب اس وقت عالمی سطح پر دنیا قلتِ آب کا شکار ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق اس وقت عالمی آبادی کا گیارہ فیصد یعنی 783 ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا کے دو بلین افراد صاف پانی سے محروم ہے۔ قلتِ آب سے دوچار ممالک میںپاکستان بھی شامل ہے۔ پانی کی قلت سے ملک کے سارے طبقات پریشان ہیں۔ بلوچستان کے تقریباً راضلاع میں قلتِ آب کی صورتِ حال نیسندھ کے بہت سے علاقوں سے لوگ احتیاطی طورپر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں بالخصوص” تھر” جو ایک سحرائی علاقہ ۔ کراچی کے بہت سے علاقوں میں پانی کی شدید کمی ہے بڑے بڑے پوش علاقوں میں پانی ٹینکر کے ذریعہ سپلائی کی جارہی ہیں ۔ قلتِ آب کی اس سنگین صورتحال سے نکلنے کے لئے السامی حل کو اپنانا ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں پانی کے اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ پانی اللہ کی عظیم نعمت ہے اور نعمتوں کے حوالے سے اللہ کا عام ضابطہ یہ ہے کہ نعمتوں کی ناقدری سے اللہ نعمتیں چھین لیتے ہیں۔ قرآن میں صاف فرمایا’ کھاؤپیو اور اسراف نہ کرو۔ (آل عمران)وضو اورنماز کے لئے پانی ضروری ہے اور وضو عبادت ہے لیکن اس کے لئے بھی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے سے منع کیاگیا۔ چنانچہ حضور نبی کریم ۖ نے ایک موقع پر فرمایا اگر تم بہتی نہر پر بھی وضو بناؤ تو پانی میں اسراف نہ کرو۔ ایک صحابی وضو کے دوران پانی زیادہ استعمال کررہے تھے۔عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔(مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)۔ایک حدیث میں ضرورت سے زیادہ پانی کو خرچ کرنے سے منع کیاگیا۔ رسول کریم ۖ جو کہ پانی کے استعمال میں کافی احتیاط کیاکرتے تھے۔
صحابہ کرام نے وضو اور غسل میں حضور ۖ کے پانی کی مقدار کا تک اندازہ کیا ہے۔ چنانچہ صحابہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۖ ایک صاع میں غسل فرماتے تھے اور ایک مُد پانی میں وضو فرمایا کرتے تھے۔ لیٹر کے حساب سے ایک صاع چار لیٹر147 ملی لیٹر اور 30 میکرو ملی لیٹر ہوتی ہے اور مُد ایک لیٹر 31 ملی لیٹر ہوتا ہے۔ اس طرح نبی کریم ۖ وضو میں ایک لیٹر سے بھی کم پانی استعمال کرتے تھے۔ غسل کے لئے قریب چار لیٹر پانی استعمال کرتے تھے۔ ایک طرف نبی کریم ۖ کی یہ ہدایات ہیں تو دوسری طرف ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ پانی میں اسراف اور بلا ضرورت پانی ضائع کرنا ہمارا وطیرہ بنتا جارہا ہے۔ مساجد میں وضو کے لئے نل کی ٹوٹی کھول دی جاتی ہے تو اس وقت تک بند نہیں ہوتی جب تک وضو مکمل نہیں ہوتا۔ بھرپور نل کھول کر کئی لیٹر پانی بہایاجاتا ہے۔ سرکاری نلوں کی ناقدری بھی افسوسناک ہے،اکسرمحلوں میں پانی کی ٹینکوں سے مسلسل پانی بہتا رہتا ہے۔ گھر والوں کو نل بند کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ سب پانی جیسی نعمت کی ناقدری ہے اور یہی ناقدری قلتِ آب کا سبب بن رہی ہے۔ معاشرہ میں پانی میں احتیاط کے تعلق سے شعور بیداری کی ضرورت ہے۔
آپ ۖ نے بہتے یا کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا تاکہ پانی ناقابل استعمال نہ ہوجائے۔ نبی رحمت ۖ نہر کے کنارے بھی وضو فرماتے تو پانی کو فضول ضائع نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ صحابہ کرام نے دیکھا کہ آپ ۖ ایک مرتبہ نہر پر وضو فرمارہے ہیں کہ برتن میں پانی لیتے پھر وضو فرماتے اور جو بچ جاتا اسے نہر میں انڈیل دیتے تھے۔ اس وقت بعض حضرات کی جانب سے وضو کے پانی کو بچانے دوبارہ زمین میں جذب کرانے کی تجویز پیش کی جارہی ہے۔ تاکہ زیر زمین سطح آب میں اضافہ ہو۔ اگر اس پر عمل کی شکل پیدا ہو تو یہ ایک اچھی صورت ہوسکتی ہے۔ اس لئے کہ ملک بھر میں ہزاروں مساجدہیں جہاں لاکھوں نمازی وضو کرتے ہیں اس طرح پانی کی ایک بڑی مقدار زمین میں جذب ہونے سے سطح آب میں اضافہ میں مدد ملے گی۔ قلتِ آب کے مسئلہ کے حل کے لئے جہاں پانی میں اسراف سے بچنے کی ضرورت ہے وہیں اللہ تعالیٰ سے پانی مانگنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں پانی کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ وہ ایسا سرمایہ ہے جو قیمت سے بالاتر ہے لیکن تمام قیمتی سے قیمتی اشیاء سے زیادہ قیمتی ہے۔اس کی قیمت کا اندازہ ان لوگوں سے معلوم کیجئے جن علاقوں میں پانی کی قلت ہے یا پانی نہیں،ان علاقوں میں ایک سے ایک قیمتی اشیاء ہیں مگر نہیں ہے تو پانی نہیں ہے۔ سارے خزانے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ کتاب و سنت میں بارش کی کمی اور قحط سالی کے اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نبی رحمت ۖ نے بعض انسانی بد اعمالیوں کو بارش کے روک لئے جانے کا سبب بتایا ہے مثلاً جو قوم زکوٰة ادا نہیں کرتی اللہ اس سے بارش روک لیتے ہیں اس طرح ظلم وزیادتی اور گناہوں کی کثرت پانی روک لئے جانے کے اسباب ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اجتماعی طورپر ہم اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں ۔ اللہ ہم سب پر اپنا خصوصی رحم فرمائے ( آمین )