تحریر : عبدالجبار خان دریشک کسی بھی ملک کی ترقی میں زرعی شعبہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔زراعت کا شعبہ جہاں ملک معیشت کو سہارا دیتا تو وہیں پر ملک میں خوراک کی ضرویات کو پورا کر کے زر مبادلہ بھی بچاتا ہے،زیادہ تر انڈسٹرز کو زرعی شعبہ سے ہی خام مال کی فراہمی کی جاتی ہے جس سے ملکی معیشت مضبوط ہوتی اور مزور کا چولہا بھی چلتا رہتا ہے، ہمارے ملک میں زراعت کا شعبہ دن بدن بدحالی اور بحران کی طرف جا رہا ہے۔ملک کا کسان مالی طور پر کمزور اور قرض میں جکڑا جا چکا ہے،جن کو کئی مسائل درپیش ہیں، منڈیوں میں کسان کو فصلوں کی مناسب قیمت کا نہ ملنا ، ادویات اور بیج ناقص، مل مالکان کی جانب سے بروقت رقوم کی ادائیگی کا نہ ہونا ، جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر زیادہ بیماریاں اور ان پرمناسب کنٹرول میں ناکامی ، جس سے پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔
ملک میں ہرسال کسی نہ کسی سیزان میں ملک کے اندرکھانے پینے کی اشیاءکا بحران کھڑا ہو جاتا ہے۔ جبکہ ملک میں موجودہ بحران سبزیوں اور پھلوں کا چل رہا ہے جن کی قیمتیں آسمانوں پر ہیں، وجہ ملک میں پیداوار کی کمی ہے جس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا ہے۔ ہمارے کسانوں کو باقی دیگر مسائل کے علاوہ بڑا مسئلہ فصلوں کو بروقت پانی کی فراہمی کا بھی رہتا ہے۔زرعی شعبہ میں پانی پہلا اور اہم جز ہے۔ یہ نہ ہو تو تباہی اور قحط ہے۔ ہمارے ملک میں زرعی شعبہ کا انحصار زیادہ تر نہری پانی پر ہے ‘جو کسانوں کے لئے آسان اور سستا ذریعہ ہے،پاکستان کا نہری نظام دنیا میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے،لیکن اتنا بہترین نظام ہونے کے باوجود کسانوں کوفصلوں کے لئے پانی کی کمی کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک میں آبی ذخائر کی کمی کی وجہ سے ہم ہر سال لاکھوں کیوسک پانی سمندر کے حوالے کر کے اپنا قومی نقصان کرتے ہیں ‘جبکہ ڈیمز کی کمی سے سیلاب بھی ہمارا مقدر بنتے ہیں۔ایک سیزان میں پانی نہ ملنے سے پیداوار میں کمی ہوتی ہے تو دوسرے سیزن میں زیادہ پانی کی وجہ سے سیلاب کا سامنا کر نا پڑتا ہے ‘ ایسے نقصانات ملکی معیشت کی کمر توڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔اب موجودہ سیزان میں زرعی شعبہ کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈیمز میں پانی کی سطح مسلسل کم ہو رہی ہے اور خدشہ ظاہر کیا جاتا ہےکہ ربیع فصلوں کو پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ربیع فصلوں میں گندم سب سے اہم ہے ملک میں کاشت شدہ گندم ملکی ضروریات کو پوری ہوتی ہے اب موجودہ سراٹھاتا پانی کا بحران جو بہت سارے خطرات کی گھنٹیاں بجا رہا ہے۔ سبزیوں اور پھلوں کی تو کمی چل رہی ہے۔ ان حالات میں خدشہ ہے کہ گندم کی پیداوار کا ٹارگیٹ پورا ہو تا ہوا نظر نہیں رہا ہے۔
پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔ پہلے سے تعمیر شدہ ڈیمز ملکی ضروریات پوری نہیں کر سکتے،جن سے نہ تو زرعی شعبہ کو پورا پانی مل پاتا ہے اور نہ ہی ان سے خاطر خواہ مقدار میں بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ہمارے لئے پلائنگ کرنےوالے ذہین لوگوں نے اس کا حل خوب نکلا ہے بجلی تھرمل اور کول سے پیدا کی جائے ،اورکسان پانی کی کمی ٹیوب ویل چلا کر پوری کریں ، جبکہ سبزیاں اور پھل دوسرے ممالک سے منگوا کر عوام کی خدمت کی جائے۔
ہمارے ہاں ڈیمز تعداد میں ایک تو تھوڑی ہے جو ڈیمز ہیں بھی تو ان میں پانی کالیول مسلسل کم ہو نے کی وجہ سے نہریں سوکھی پڑی ہیں۔ کسان پانی کے حصول کے متبادل ذرائع پر انحصار کرتا ہے ‘جو اخراجات پر بھاری پڑتے ہیں۔زرعی شعبہ کے لئے متبادل ذرائع سے لگاتار پانی کے حصول سے ایک تو کسان کے اخراجات مین آضافہ ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی اس پانی سے پیداوار اتنی نہیں ملتی جتنی نہر ی پانی سے ملتی ہے۔ اس کے علاوہ مستقبل میں انسانی آبادی کو بھی صا ف پانی کے کمی کا سامنا کر نا پڑے گا ،زیر زمین پانی کا لیول بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے ساتھ ہی زیر زمین پانی خراب اور مضر صحت ہوتا جا رہا ہے۔ہماری زمین کی سطح کے نیچے ستر فیصد حصے میں پانی مو جو د ہے جو تقریبا ً 1.4 ارب کیو بک میٹر ہے جس میں سے صرف 2.5 فیصد پانی پینے کے قا بل ہے ۔اس وقت دنیا میں صا ف پانی کا مسئلہ بڑی تیز ی سے سر اٹھا رہا ہے جس کے انسانی آبادی پر اثرات مرتب ہوں گے‘دنیا میں پانی کی بچت کے لئے فصلوں کو ڈریپ ایری گیشن سے پانی کی فراہمی کی جا رہی ہے ۔دوسری طرف ہم ہر سال لاکھوں کیو سک پانی سمند ر کے حو الے کر کے سکون کر لیتے ہیں چلو یہ اب سمند ر کے حو الے اب یہ ہمارا کوئی نقصان نہیں کر ے گا۔
ڈیمز میں پانی کی کمی ملک کے پورے نظام کو متاثر کرتی ہے‘ پانی کے مسئلے پر ہماری عدم توجہی غیر سنجیدگی اور نئے ڈیمز کی تعمیر میں تاخیر جبکہ خاص کر کالا باغ ڈیم کو خوامخواہ متنازعہ بنا کر قوم کے ساتھ زیادتی کی جارہی ہے۔بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی پر ہماری حکومتوں کی خاموشی اور وقت گزاری عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے۔بھارت پاکستان کے حصے کا پانی روک کر مختلف مقامات نئے ڈیمزبنا رہا ہے ۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کے خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ ڈیم تعمیر کر رہا ہے۔ حس سے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں میں مزید پانی کم ہو جا ئے گا ۔بھارتی کی خلاف وزی کا دفاع ہماری طرف سے موثر انداز می نہیں کیا جارہا ہے صورت حال یہ ہے کہ دریائے ستلج مکمل خشک ہو چکا ہے جبکہ راوی اور چناب میں برائے نام پانی رہے گیا ہے۔سندھ طاس معاہدے میں ورلڈ بنک نے ثالث کا کردار ادا کیا تھاپر اب لگتا یہ ہے ورلڈ بنک بھی بھارت کے دباؤں میں آچکا ہے۔بھارت پاکستان کے حصہ کا پانی روک بدمعاش بنا ہوا ہے۔ بھارت اپنے ناپاک عزائم سے پاکستان کو ہر طرح سے کمزور کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں کالا باغ ڈیم نہ بننے میں بھارتی سازش کا بڑا ہاتھ ہے ،بھارت اس منصوبے کو سرد خانے میں رکھنے کی مخالفت میں سالانہ اچھی خاصی رقم خرچ کررہا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کو متفق ہو کر کالا باغ ڈیم کے بارے سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا۔اس کی تعمیر سے جہاں پانی اور بحلی کا بحران ختم ہو جائے گا اور ہر سال موسم گرما میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اور ہر سال لاکھوں کیوسک پانی سمندر برد ہونے کی بجائے ڈیم میں سٹور رہے گا، انڈسٹریوں کے لئے بجلی وافر مقدار میں پیدا ہوگی۔ملک میں زراعت کا شعبہ مضبوط ہو گا تو کسان خوش حال ہو گا اور ملک ترقی کرے گا۔