1971میں ایک مصری ڈاکٹر نے مغربی پرنٹ میڈیا کو ایک خط کے ذریعے اپنا مفروضہ پیش کیا جس میں اُس نے تحریر کیا تھا کہ’’ آبِ زم زم پینے کے لئے مضر اور غیر موزوں ہے۔کیونکہ یہ خانہ کعبہ کے گرد پہاڑوں کی وادیوں میں بالکل نچلی اور گہرائی کی سطح پر واقع ہے۔جو سطح سمندر سے بھی نیچی جگہ تصور کی جاتی ہے۔کیونکہ یہ مکہ شہر کے مرکز میں واقع ہے۔لہٰذا پورے شہر کا گندا اور سمندری پانی اس میں شامل ہو کر پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔جو پینے کے لئے مضرِ صحت ہے‘‘شاہ فیصل شہید کو جب یہ خبر دی گئی تو انہیں بہت غصہ آیا لہٰذا انہوں نے مصری ڈاکٹر کے مفروضے پر تحقیقات کے لئے فوراََ ہی وزارت زراعت و آبی کو حکُم دیا کہ آبِ زم زم کے نمونے یورپی لیبارٹریز میں بھیج کر ٹیسٹ کرو کر منگوائے جائیں۔ لہٰذا متعلقہ وزارت کی طرف سے جدہ پاور اینڈ ڈی سلائنٹیشن پلانٹ کو یہ کام سونپا گیا۔
ایک پاکستانی ڈاکٹر معراج صدیقی جو اس محکمے میں ملازمت کر رہے تھے ۔اُن کا یہ کہنا ہے کہ اس وقت سعودی عرب میں سمندر کے پانی کو میٹھا کر نے کے پلانٹ میں میں کیمیکل انجنئر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ آبِ زم زم پر کام کے لئے میر اانتخاب کیا گیا۔اس وقت تک مجھے آبِ زم زم کے کنویں کے بارے میں باکل کوئی علم یا اندازہ نہ تھا۔میں نے مکہ مکرمہ پہنچ کر اپنے کام سے متعلق حکام کو اطلاع دی۔کہ خانہِ کعبہ میرے آنے کا سبب کیا ہے؟ میری مدد کے لئے ادارے کی طرف سے مجھے ایک آدمی دیا گیا۔جب میں زم زم کے کنویں پر پہنچا تو مجھے اس بات کا یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے تالاب کا سائز صرف 18بائی14 فٹ ہے۔ہزاروں سالوں سے عازمینِ حج کو کروڑوں گیلن پانی روزانہ فراہم کرتا ہے۔اور اس کے استقلال میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا ہے۔
ڈاکٹر معراج کا کہنا ہے کہ میں نے کنویں پر اپنی تحقیقات کا آغاز اس کئی پہلووں سے کیا۔میں نے سب سے پہلے اپنے مدد گار سے کہا کہ مجھے اس کنویں کی گہرائی ناپ کر بتاؤ؟وہ غسل کرنے کے بعد کنویں میں اتر گیا۔میں نے دیکھا کہ کنویں کا پانی اُس کے کندھوں تک آرہا ہے۔اس کا قد قریباََ پانچ فٹ آٹھ انچ(5 feet 8 inches )تھا اس طرح پانی کی گہرائی کل پانچ فٹ تھی۔اب وہ کنویں کے ایک کونے سے دوسر، دوسرے سے تیسرے اور تیسرے سے چوتھے کونے تک چلتا رہا۔اس میں کہیں بھی کوئی پائپ لائن نصب نہ تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ زم زم کے حوض کا پانی بھاری پمپ کے ذریعے آسانی کے ساتھ نکال کر اس کو خالی کیا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک ہیوی پمپ نصب کرایا تاکہ کنوین میں اسٹور شدہ پانی کے اخراج کے بعد اس مقام کا اندازہ کر لیا جائے کہ کہاں سے پانی آکر کنویں میں اکٹھا ہوتا ہے؟ ہیوی پمپ کے ذریعے پانی کے اخراج کے باوجود ،پانی کی آمد سے متعلق کوئی شواہد سامنے نہیں آر رہے تھے اورہیوی پمپ کے ککشن کے باوجود کنویں کے پانی کی سطح میں بھی کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔لہٰذا میں نے اس عمل کو بار بار کنویں سے باہر دوہرانے کا فیصلہ کیا اور اپنے مدد گار سے کہا کہ جب بھی کوئی غیر معمولی بات ہو مجھے اطلاع دینا۔کچھ ہی دیر بعد میرے مدد گار نے چییخ کر کہا الحمدُ لیلہ میں نے وہ مقام تلاش کر لیا ہے جہاں سے پانی آتا ہے۔ریت کی تہہ میرے پیروں کے گرد گھوم رہی ہے۔جیسے پانی کنویں تہہ سے نکل رہا ہے۔اب اس نے پمپنگ کے دوران ہی کنویں کی ہر سمت میں چلنا شروع کر دیاتھا۔اس دوران اس نے کنویں کے ہر مقام پر یہی بات محسوس کی کہ حقیقتاََ کنویں کی تہہ میں ہر مقام سے پانی کایکساں اخراج جاری تھا۔جس کی وجہ سے کنویں کے پانی کا لیول یکساں رہتا ہے۔جب میں نے تحقیقات مکمل کر لیں تو میں نے آبِ زم زم کے نمونے یورپی لیبارٹریز کو بھیجنے کے لئے حاصل کئے اور حکام کے حوالے کر دیئے۔اس کے بعد میرا کام ختم ہو گیا۔
مکہ چھوڑنے سے پہلے میں نے حکام سے مکے کے گرد کے دیگر کنووں کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ شہر مکہ کے گرد و نوح کے تمام پرنے کنویں سوائے زم زم کے سوکھ چکے ہیں۔اپنی روانگی سے قبل میں نے اپنے کام کی رپورٹ اپنے سینئر کو پیش کی تو اس پر انہوں نے ایک بہت ہی احمقانہ رائے دی کہ زم زم کے کنویں کا اندرونی طور پر بحرِ احمر سے تعلق ہو سکتا ہے۔میں نے سوچا کہ یہ کس طرح ممکن ہے جبکہ بحرِ احمر مکہ مکرمہ سے 75کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔اسکے علاوہ جتنے پرانے کنویں مکے میں تھے وہ سب کے سب پہلے ہی خشک ہو چکے ہیں۔اگر بحرِ احمر کا پانی یہاں تک پہنچتا ہے تو اس میں آلودہ پانی بھی شامل ہو جاتا ہے۔دوسری جانب مکے کے بقیہ کنووں کو سوکھنا ہی نہیں چاہئے تھا۔تیسری بات یہ کہ پانی مٰ کھارا پن بہت زیادہ ہونا چاہئے۔
جتنے نمونے سعودی حکومت کی جانب سے ٹیسٹنگ کے لئے یورپ بھیجے گئے تھے اور وہ نمونے جو ملک میں ٹیسٹ کرائے گئے تھے سب کی رپورٹیں یکساں آئیں کہ ’’یہ پانی پینے کیلئے انتہا ئی مفید ہے۔‘‘عام پینے کے پانی اور آبِ زم زم میں کیلشیم اور میگنیشیم سالٹس کی مقدار کا فرق ہے۔آبِ زم زم اور عام پانی میں ان منرلز کی مقدار کا فرق ہے۔زم زم میں ان منرلز کی مقدار پینے کے عام پانی سے نسبتاََزیادہ پائی گئی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ جب تھکن کی کیفیت میں حاجی اس پانی کو پیتے اور بدن پر ڈالتے ہیں تو ان کی تھکن کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔پانی میں فلورائڈ کی مقدار بڑھے ہونے کی وجہ سے جراثیم خود بخود زم زم سے دور رہتے ہیں۔یورپی لیبارٹریز کی تصدیق کے بعد مصری ڈاکٹر کی ہرزہ سرائی اور مفروضے کی بھر پور نفی ہوگئی ہے۔اس کے بعد شاہ فیصل نے ان رپورٹوں کو یورپی میڈیا کے لئے جاری کرنے کا حکم دیا جو تمام یورپی میڈیا کو فوری طور پر بھیج دی گیءں۔یہ اللہ رب العزت کا احسان ہی ہے کہ ان تجزیوں کے نتیجے میں اب آبِ زم زم کی کیمیائی ساخت سامنے آچکی ہے۔اس کی جس قدر جستجو کی جائے گی اسی قدر زم زم کی خصوصیات ہم پر عیاں ہوتی چلی جائیں گی۔بِلا کسی شک و شبہے کے یہ ربِ کائنات کا ہم پر عظیم انعام ہے جو ساری دنیا کو محوِ حیرت کئے رکھے گا۔اس پانی کو کبھی بھی کیمیکلز کے ذریعے صاف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پانی میں کسی قسم کی بایولوجیکل تبدیلی نہیں آتی ہے۔اس کا ذائقہ ہمیشہ یکساں رہتا ہے۔اس کی رنگت تازگی اور خوشبو میں کبھی تبدیلی نہیں آتی ہے۔اس میں کبھی بھی کلورین کی آمیزش کی کی ضرورت نہیں ہے۔آپ اسے اصل شکل میں چاہے جتنا عرصہ رکھیں اس پانی کی کسی بھی خصوصیت میں ذرہ برابر بھی کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہوئی محسوس نہیں کریں گے۔شوگر، امراضِ قلب ،ٹی بی اور دیگر اقسام کی بیماریوں میں زم ز م کا استعمال بے حد مفید ہے۔اس کے استعمال کا سنت طریقہ عام پانی کے استعمال سے بالکل مختلف ہے۔آبِ زم زم کو قبلہ رخ کھڑے ہو کر ایک ہی سانس میں پورا پانی پینے کا حکم ہے۔اس میں بڑی برکتیں اور شفیابی ہے۔
دنیا کے کسی بھی پانی کے لئے اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ اُس میں آلودگی نہیں ہے۔تو یہ سچ نہیں ہوگا ہر قسم کا پانی اپنے اندر کوئی نہ کوئی آلودگی ضرور رکھتا ہے۔لیکن دنیا میں ایک ایسا پانی بھی ہے جس کے متعلق دنیا کی بہتریں لیبارٹریز نے تصدیق کی ہے کہ ’’آبِ زم زم‘‘میں کسی بھی قسم کی آلودگی موجود نہیں ہے۔میرداعویٰ اورچیلنج ہے کہ ہم دنیا کاکوئی بھی بہترین غیر آلود پانی لے آئیں، آبِ زم زم جو ایک معجزاتی پانی ہے۔کے مقابلے کے لئے دنیا کی بہترین لیبارٹریز میں چیک کرواکے دیکھ لیں دیگر پانیوں میں آلودگی مل جائے گی ،مگر آبِ زم زم میں کسی بھی قسم کی کوئی آلودگی ثابت نہیں کی جاسکے گی۔ �آبِ زم زم کی شفاء یابی اور خصوصیت کے بارے میں متعدد احدیث یسِ مبارکہ موجود ہیں ۔ جواس کے معجزاتی اثرات کی واضح دلیل ہیں۔جب حضرت ابرہیم علیہ السلام حضرت حاجرہ کومکے کی وادیوں میں اپنے نو زائدہ فرزندحضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ چھوڑ کر مصر کی جانب عازمِ سفر ہوئے تو اس بے آب و گیا ویران وادی میں اللہ ربِ کائنات کے سوائے ان کی مدد کرنے والا اور فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔اور ہر جانب بلند و بالا بے آب و گیا چیٹل پہاڑ وں کا ایک طویل سلسلہ تھا کہ حدِ نظر تک پھیلا ہواتھا۔جو نظروں کو اُس پار دیکھنے ہی نہیں دیتے،اور پھر جسم کو جھُلسادینے والی گرمی انسانی روح تک کو مجروح کر دیتی ہے۔ جبکہ اونچی نیچی غیر ہموار وادی کی سطح پر ریت کی ایک دبیز تہہ جسم کو جھلسادینے والی بچھی ہوئی تھی۔
غرض یہ کہ پورا ماحول زندگی کے لئے انتہائی خطر ناک تھا۔ا نسانی غذا کے لئے سوکھی گھاس پھوس کے سوائے یہاں کچھ بھی تو نہ تھا۔جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بھوک ،پیاس اور گرمی کی شدت سے بلبلا رہے تھے ۔تو حضرت حاجرہ بیٹے کی محبت میں بے چینی سے پانی کی تلاش میں سرگرداں تھیں۔مروہ کی پہاڑی سے چند گز کے فاصلے پر لختِ جگر کو زمین پر لٹا کر پانی کی تلاش میں سرابوں کا پیچھا کر رہی تھیں۔صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر مروہ کی جانب نظر کی تو دیکھ کہ پوری وادی میں پانی ہی پانی لہریں مار رہا ہے۔اس سُراب کو دیکھ کر حاجرہ مروہ کی جانب دوڑیں، جیسے وہ آگے بڑھتیں پانی آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا تھا۔جب مروہ سے صفا کی جانب مڑیں تو پانی کا وہی منظر آنکھوں کو پتھرا رہا تھا۔حاجرہ نے اس سُراب کا پیچھا کرتے ہوئے صفا اور مروہ کے سات چکر لگائے مگر پانی کے حصول سے محروم رہیں۔ آخری چکر کے بعد جب مُڑکر بیٹے کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا تو اسماعیل کے چیخنے اور ایڑیاں رگڑنے سے بے آب گیا زمین سے پانی کا فوارہ جار ی ہو گیا۔(صفا و مروہ کی سعی اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ نے سعی کو ’’شعائر اللہ ‘‘کا نام دے کرہر حاجی پر عمرہ اور حج میں سعی کے سات چکرلگانا لازمی قرار دے دیا ہے)
یہ پانی بڑی تیزی کے ساتھ زمین پر پھیلنے لگا۔ تو حاجرہ بے چینی سے اس جانب لپکیں بہتے پانی کو دیکھ کر اُن ک زبان سے بے تحاشہ نکلا’’زم زم‘‘ یعنی بہتے پانی رُک جا رُک جا ۔ ورنہ شائد مکے کی پوری وادی اس شفاف اور متبرک پانی میں ڈوب جاتی! پانی کا بہنا رُک گیااور یہ پانی اہلِ ایمان کے لئے ہمیشہ کے لئے متبرک ٹہرا۔اس پانی نے حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کے لئے زندگی کا سامان مہیا کر دیا تھا۔ ہمارزدعویٰ اور یقین ہے کہ آبِ زم زم ہر بیمار کے لئے شفا کا کام کرتا ہے۔اس کی خصو صیت یہ ہے کہ قدرت نے اس میں ہر قسم کے صحت افزا اجزاء پیدا کئے ہوئے ہیں۔اس پانی کو اصل شکل میں آپ چاہے جنتے سال رکھیں یہ کبھی آلودہ یا خراب نہیں ہوگا۔اس میں نہ تو فنگس پیدا ہوگی اور نہ ہی بدبو پیدا ہوگیاس کے علاوہ اس کا ذائقہ بھی نہیں بدلے گا۔جس شکل میں آپ اس پانی کو محفوظ کریں دس، بیس سال بعد بھی یہ اپنی اصل شکل میں ہی ملے گا۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.co